جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو، وہاں دیانتداری، ایمان کی مضبوطی، اصول پرستی، خوداعتمادی اور عملی قربانی کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ جس معاشرے میں قانون اور انصاف بڑی بڑی بولیوں پر بکتے ہوں، جہاں عدالتوں میں بھاری رقوم کے عوض گواہی دینے والے خرید لئے جاتے ہوں، جہاں رشوت لینے اور رشوت دینے والے کے خلاف قرآنی آیات میں بیان کی گئی سزا کے حروف کو دفتروں کی دیواروں پر لٹکانے کے باوجود رشوت کے بجائے ”خرچہ“ کو جائز تصور کیا جاتا ہو، جہاں بھکاریوں نے گداگری کے مخصوص ریٹ مقرر قائم کررکھے ہوں، جہاں مردار جانوروں کی ہڈیوں سے گھی اور ہسپتالوں میں استعمال شدہ ”سرنجوں“ اور خود آلود انتڑیوں سے معصوم ننھے بچوں کے پلاسٹک فیڈر بنائے جاتے ہوں، جہاں پُلس کے سپاہی تھانیدار، ایف آئی اے کے کانسٹیبل، واپڈا کے لائن مین اور پٹواریوں کی بھرتی کو لاکھوں میں تولا جاتا ہو اور پھر جس اسلامی معاشرے میں حصول انصاف کے لئے لوگوں کو در در کے دھکے کھانے پڑتے ہوں، جہاں راہ چلتے بچوں کو اغوا اور عورتوں کو ”ریپ“ کیا جاتا ہو، جہاں مسجدیں، مندر اور گرجا گھر تک محفوظ نہ ہوں اور جہاں کے سیاستدان منافقت کی چادر اوڑھ چکے ہوں....؟ ایسے معاشرے میں جیو اور جینے دو کا خواب محض ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ 23 مارچ ہو رہا ہے.... مگر مجھے اپنے وطن میں 69 برس کے بعد بھی وہی کچھ نظر آیا جو آج تک نظر آرہا تھا۔ اسی لئے مجھے ابتدا میں یہ نقشہ کھینچنا پڑا ہے۔ 23 مارچ تجدید عہد کا دن ہے، اس بار بھی قوم نے کیا کیا عہد نہیں کیا۔ سیاستدانوں نے مسائل کی شکار بیچاری عوام سے کیا کیا وعدے نہیں کئے، مگر نہ روٹی، نہ بجلی، نہ گیس، نہ خوشحالی اور نہ ہی غریب اور سفید پوش کی حالت سنبھل سکی ہے۔ نقشہ یوں ہے کہ
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاﺅں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
آزادی کے 69 برس گزرنے کے باوجود بھی حکمران اگر قومی مسائل، معیشت اور حقیقی جمہوریت کا درست ادراک نہیں کرسکے جو اس نظریاتی مملکت کی پہلی اساس تھی تو پھر اس حکمرانی کا فائدہ کیا....؟؟ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نے کاش یہ تو سوچ لیا ہوتا کہ قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد کیا تھے؟ دروغ گوئی کے بل بوتے پر عوام بیچاری سے اگر منافقت کے کھیل ہی کھیلنے تھے تو بہتر تھا کہ کوئی اور منافع بخش کاروبار کرلیتے۔ یہ قوم کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ محنت، جذبہ، حب الوطنی، خودداری اور اسلامی لگن ایسے اوصاف ہونے کے باوجود بھی اس کی وہ توقعات پوری نہیں ہوسکیں جس کی پچھلے 69 برس سے وہ منتظر چلی آرہی ہے۔ 23 مارچ کا قومی دن منانے کے باوجود ہمارے حکمران یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے کہ صحت، دہشت گردی اور بجلی، گیس کے مسائل کا حتمی حل کب تک ممکن ہوگا.... یہ تو دعائیں دیں افواج پاکستان کو جس کی قربانیوں کی بدولت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شمار آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں ہونے لگا ہے۔ ”ضرب عضب“ نے ملک کے اندر ہی نہیں بیرونی دہشت گردی کی جڑ کو بھی اکھاڑ پھینکا ہے۔ عسکری حوالے سے پاکستان کو ابھی ایک اور طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔ محض ”بینڈی بسیں“ یا اورنج ٹرینیں چلانے سے عوام کی خوشحالی کا اصل خواب پورا نہیں ہوگا۔ حکومت کو عوام کے بنیادی مسائل جن میں بے روزگاری، غربت، بیماریاں اور انصاف کا حصول سرفہرست ہیں، توجہ دینا ابھی باقی ہے۔ 2 سو ارب روپے کی لاگت سے چلائی جانے والی ”اورنج ٹرین“ کے بجائے یہ خطیر رقم اگر بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمہ پر خرچ کی جاتی تو ملک کے 20 کروڑ عوام کا بھلا ہوجاتا۔ اسی طرح لاہور کے ہسپتالوں میں ایک چارپائی پر دو دو مریضوں کی مجبوری اور بیماری کا اگر احساس ہوجاتا تو حکومت میں شامل اراکین رات کو سونا بھول جاتے۔ یہ سب احساس اور ذمہ داری کی باتیں ہیں۔
ضمیر جعفری نے ایک بڑی خوبصورت بات کہی تھی
بڑی مدت سے کوئی دیدہ ور پیدا نہیں ہوتا
جو ہوتا ہے مسلمانوں کے گھر پیدا نہیں ہوتا