تحریک پاکستان کا نشان مینار پاکستان آج کل اپنی بقا کی فکر میں نظر آ رہا ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی اور اس کے ساتھ ہی شہر لاہور میں ٹریفک کے بے پناہ دباوُ کی وجہ سے حکومت وقت نے مینار پاکستان گراؤنڈ کو بہت محدود کر دیا ہے۔ یہ وہی تاریخی جگہ ہے جہاں کسی وقت برصغیر کی ممتاز شخصیات ایک نظریے کو لے کر اکٹھی ہوئی تھیں۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک ایسا اسلامی فلاحی ملک قائم کرنا تھا جہاں سب لوگ پُرامن طور اپنی زندگیاں گزار سکتے۔ اس مینار کے سینے میں ہمارے عظیم قائد کی بے شمار یادیں بھی جُڑی ہوئی ہیں۔ اس کی آن بان شان ہماری تاریخ کی عظیم ہستیوں کے عہد و پیماں کی علامت ہے۔ اب ہماری مجبوریاں ہیں کہ ہم یہاں صرف ایک مینار ہی باقی رکھنا چاہ رہے ہیں۔ سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے حاصل ہونیوالے ملک میں سیاست کبھی بھی صحیح معنوں میں پنپ نہیں سکی۔ قائداعظم کی ترجیحات میں ایک ایسا ملک قائم کرنا تھا جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری قوموں کو بھی اپنے عقائد کے مطابق زندگیاں گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلام جو سلامتی کا مذ ہب ہے، جو اپنے ماننے والوں کو سب کے حقوق پورے ادا کی تلقین کرتا ہے اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں کئی دہائیوں سے بدامنی اور غیر جمہوری طرز فکر کا بول بالا دکھائی کیوں دیتا ہے۔ جمہوریت کا اصل سبق اسلام نے ہی دیا ہے جہاں سب کے حقوق کے تحفظ کا سبق ہے۔ اسلام بنیادی طور پُرامن، مساوات اور برداشت کا مذہب ہے۔ اسلام میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مسلم اُمت کئی صدیوں سے تعلیمی شعبوں میں پیچھے ہے۔ ایک ایسی قوم جو دنیا کو جدید علوم سکھانے نکلے تھے اس قوم کے جانشین آہستہ آہستہ جدید تعلیم سے دور ہوتے چلے گئے۔ مسلمان جنہیں قرآن میں غور و فکر کی تلقین کی گئی ہے، جنہیں علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے کا درس دیا گیا تھا، جنہوں نے کفار کے جنگی قیدیوں کو اس شرط پر معافی دیدی کہ وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ اس اسلام کے ماننے والوں نے اپنے آپ کو صرف مذہبی تعلیم کی طرف مرکوز کر لیا۔ بات مذہبی تعلیم تک ہی رہتی تو بھی شاید دنیا میں مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے بلکہ ہم نے مذہبی تعلیمات کی ترویج فرقوں کی بنا پر شروع کر دی۔ آج ہماری مسجدوں میں دین اسلام کی بات کم ہوتی ہے جبکہ ہمارے علما کرام اپنے عقیدے اور فرقے پر زیادہ بات کرتے ہیں۔ آج کل بھی اس یادگار پاکستان کے سائے تلے سب سیاسی اور مذہبی جماعتیں جلسے کرتی ہیں لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب کسی سیاسی منشور کے تحت ملک کے عوام کی حالت سدھارنے کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا ہے بلکہ اس مینار کی برکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی قدآور شخصیت ملک میں جاری سیاسی نظام کو لپیٹتے ہوئے اپنی باری حاصل کرنے کی بات کرتی ہیں۔ جو ملک مکمل سیاسی کوشش سے حاصل کیا گیا تھا۔ اس ملک کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی بجائے فوجی آمریتی نظام زیادہ دیر چلتا رہا ہے۔ پاکستانی فوج جس کی محبت ہمارے خون میں شامل ہے جسے دنیا اسلام کی بڑی عسکری طاقت کہا جاتا ہے جو بلاشُبہ ہر طرح سے مکمل ٹرینڈ اور باصلاحیت ادارہ ہے۔ ہمارے کچھ دھتکارے ہوئے سیاسی رہنماؤں کے کہنے پر عوامی حکومت کا بوریا بستر گول کرتی رہی ہے اور پھر اسے حکومت چلانے کے لئے ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا پڑتا رہا ہے جن کو سیاسی میدان میں عوام اکثر مسترد کر دیتے ہیں۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کئے ہوئے ملک کو آج مغربی انداز طرز فکر پر چلانے کی کوششیں باعث تشویش ہیں۔ اسلام عورتوں کو ہر حیثیت میں بہترین حقوق دیتا ہے۔ پنجاب حکومت نے عورتوں کیلئے چاہے کچھ بہتر کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس کا طریقہ کار کچھ تبدیل کر نے کی ضرورت ہے جہاں خاندانی نظام مضبوط ہے وہاں ایک گھریلو عورت کو ہر طرح کے حقوق بہتر طور پر حاصل ہیں۔ خواتین بل میں کسی شکایت کی صورت میں متاثرہ عورت بجائے کسی تھانے میں جائے اس کے لئے حکومت کو بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل کمیٹیاں قائم کرنی چاہئیں۔ ہمارے پولیس تھانے ابھی ایسی اچھی شہرت سے بہت دور ہیں جہاں کوئی بھی شریف عورت اپنے خلاف ہونے والی کسی شکایت کو لے کر بے خوف خطر جا سکے۔ بے شک ملک کی ترقی میں عورتوں کا بہت حصہ ہے۔ ملک میں اس وقت بھی مردوں سے زیادہ تعداد میں خواتین ہیں۔جہاں معاشرے میں خواتین کو احساس تحفظ کی ضرورت ہے وہیں اس احساس کی بھی ضرورت ہے کہ ایک لمبے عرصے سے تعلیمی میدان میں بہتر نتائج دینے کے باوجود بہت سی بچیاں شادی کے بعد عملی میدان سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ وہیں یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہماری حکومتیں نصاب تعلیم سے اسلامی مشاہیر کو نکال کر مغربی لوگوں کو جگہ دے رہی ہیں۔ ملک کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ علماء کرام کے ساتھ مل کر نصاب میں بچوں کو اسلامی تعلیمات سے ایسے روشناس کرایا جائے کہ انہیں اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی برابر پتہ ہو۔ جو علم ایک بچہ سکول میں حاصل کرتا ہے اس کا اثر اس کی شخصیت پر عمر بھر رہتا ہے۔ نظام تعلیم میں صوفیاء کرام کی تعلیمات کو بھرپور جگہ دے کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دے سکتے ہیں ۔ یہ تجدید عہد کا دن ہے۔ اس دن ہمیں اسلام کے زریں اصولوں کے تحت اس ملک کو جنت نظیر بنانے کی طرف اپنا سفر شروع کر دینا چاہئے۔