”23مارچ اور دو قومی نظریہ “

23مارچ 1940ئ ۔۔۔وہ روشن دِن جب برّ ِ صغیر پاک و ہند کے کروڑوں مُسلمانوں نے مردِ آہن حضرت قائدِ اعظم ؒ کی بصیرت افروز قیادت میں ایک الگ خطّہ اراضی حاصل کرنے اور علامہ اقبال ؒ کا خواب شرمندہ تعبیر کرنیکا مصمم ارادہ کیا ۔ جسکی بُنیاد سرسید احمد خانؒ نے رکھی تھی اور آج پاکستان کو ایک آزاد مملکت کے طور پر دُنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئے 69سال اور تقریباً 7ماہ گُذر چُکے ہیں ۔14 اگست 2017ئ کو ہم اپنی آزادی کی 70ویں خوشیاں منائیں گے ۔ اس عرصے کے دوران ارضِ پاک نے جہاں کئی زخم اپنے سینے پر برداشت کئے وہاں کئی خوشیوں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹا۔ میں خوشی و مُسرت کے اِس موقع پر کسی بھی دُکھ و الم کی داستان کا ذِکر کرنا نہیں چاہتا لیکن اِس سوال کا جواب ضرور ڈھونڈنا چاہتا ہوں کہ ہم نے پاکستان کیوں حاصل کیا۔۔۔؟ہمیں کیوں ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم ایک آزاد مُلک کی بُنیاد ڈالیں اور اپنے طرزِ زندگی کو اپنے انداز سے بسر کریں۔۔۔؟ ہم نے لاکھوں انسانوں کی قُربانی کیوں پیش کی کہ جس کے عوض ہمیں آزاد دھرتی مُیسر آئی۔۔۔؟ یعنی کہ ہمارے قائدین کی نظر میںدو قومی نظریہ کیا تھا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے قیام ِ پاکستان کے لئے جدو جہد کی۔۔۔؟ یوں تو قیامِ پاکستان کی تحریک میں شامل ہر شخص اپنی اپنی جگہ قابلِ عزت و توقیر ہے۔ لیکن چند شخصیات ایسی ہیں جنکی فکر انگیز قیادت نے اِس تحریک کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے معمارِ اوّل سرسید احمد خان سے لیکر نواب لیاقت علی خان تک ہر رہنُما کی رہنُمائی ہمارے لئے باعث ِ تقلید ہے ۔ لیکن آج میں دو اہم ترین شخصیات کا تصورِ پاکستان اُنہی کے افکار کی روشنی میں پیش کررہا ہوں تاکہ قار ی جان سکے کہ ہمارے قومی رہنُما پاکستان میں کیسا نظام کے خواہاں تھے۔۔۔؟ میری مُراد مفکرِ مِلّت ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ اور بابائے مِلّت قائدِ اعظم ؒ سے ہے۔علامہ اقبال ؒ نے الٰہ آباد میں 1930ئ کے آل انڈیا مُسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مُسلمانانِ ہند کےلئے جُداگانہ ریاست کا تصور اِن الفاظ کیساتھ بیان فرمایا۔۔۔” ہندوستان دُنیا بھر میں سب سے بڑا اِسلامی مُلک ہے۔اِس مُلک میں اسلام بحیثیت ایک تمدّنی قوّت کے اُسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے کہ اِسے ایک علاقے میں مرکوز کر دیا جائے ۔اِس لئے میری آرزو یہ ہے کہ پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک واحد اسلامی ریاست قائم کی جائے “ ۔ علامہ اقبال ؒ کی وفات کے بعد قائدِ اعظم ؒ سالارِ کارواں کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتے ہیں وہ اِقبال ؒ کے تصورِ پاکستان کا عَلم سنبھالتے ہوئے۔ 1945 ئ میںفرنٹئیر مُسلم سٹوڈنٹس کے نام پیغام میں فرمایا ۔۔۔” پاکستان سے مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر مُلکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس سے حقیقی مُراد مُسلم آئیڈیالوجی ہے جس کا تحفظ نہایت ضروری ہے۔ ہم نے صرف اپنی آزدی حاصل نہیںکرنی ، ہم نے اِسے اِس قابل بھی بنانا ہے کہ اِسکی حفاظت بھی کر سکیں اور اسلامی تصوّرات اور اصولات کیمُطابق زندگی بسر کر سکیں“ پِھر27نومبر 1945ئ کو ایڈورس کالج پشاور میں دین اور مذہب کے مابین پائے جانیوالے فرق کو یوں بیان فرمایا ۔۔۔” ہم دو قوموں ( ہندو و مُسلم ) میں صرف مذہب کا فرق نہیں ، ہمارا کلچر ایکدوسرے سے الگ ہے ۔ہمارا دین ہمیں ایک ضابطہ حیات دیتا ہے ، ہم اِس ضابطے کیمُطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں “ ۔
0 194 ئ کو منٹو پارک لاہور کے تاریخی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم ؒ نے فرمایا ۔۔۔” میرے لئے یہ اندازہ لگانا بہت مُشکل ہے کہ آخر ہمارے ہندو بھائی ، اسلام اور ہندو مت کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنے سے کیوں گُریزاں ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ یہ دونوں مذہب نہیں بلکہ ایکدوسرے سے مُختلف معاشرتی نظام ہیں اور اِس بُنیاد پر مُتحدہ قومیت ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔یاد رکھیئے ! ہندو اور مُسلمان زندگی کے ہر معاملے میں جُداگانہ فلسفے رکھتے ہیں ، دونوں کی مُعاشرت ایکدسرے سے مُختلف ہے ، یہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں ، جنکی بُنیادیں مُتضادتصورات پر ہیں ۔ دو ایسی قوموں کو ایک نظامِ سلطنت میں یکجا کردینا باہمی مناقشت کو بڑھائے گااور بالآخر اس نظام کوپاش پاش کر دے گا جو اِس مُلک کی حکومت کے لئے وضع کیا گیا ہے“ ۔ یعنی قائدِ اعظم ؒ نے واضح فرما دیا کہ اسلامی مملکت کی بُنیاد لَا اِلہٰ الّا اللہ ُ ہے جس کے مُطابق اِس بات کا عملی طور پر اعتراف اور اقرار کرنا ہے کہ خُدا کے سِوا کو ئی اور ہستی نہیں اور صرف اِسکی اطاعت لازم ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطاعت ِ خُداوندی کیسے کیجائے؟اُس کے احکامات ہم تک کیسے پہنچیں؟ کیونکہ وہ تو اَن دیکھی ذاتِ بابرکات ہے۔اطاعتِ خُداوندی کا عملی ذریعہ صرف قُرآن مجید ہے جو رب کریم نے اپنے حبیب ِ پاک ﷺ پر نازل فرمایااور تا قیامت اِسکی حفاظت ذمہ داری اپنے ذمہ لی ۔اِسمیں ہے کہ ©©” جو کُچھ خُدا نے تُمھاری طرف نازل کیا اِس کا اتباع کرو ، اِس کے سِوا کسی اور سرپرست کا اتباع نہ کرو “ (7/3)۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” جو خُدا کی کتاب کے مُطابق فیصلے نہیں کرتے تو یہی لوگ ہیںجنہیں کافر کہا جاتا ہے “ (5/44) ۔ لہذا ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی بھی مُسلم حکومت کے آئین یا قانون کی بُنیاد و اساس صرف قُرآنِ پاک ہو سکتی ہے اور کوئی نہیں۔۔۔۔
یہ تھا وہ دو قومی نظریہ جس کی بُنیاد پر اُنہوں نے ہندوستان کے کروڑوں مُسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کیا اور آزادی کی شمع روشن کر کے دُنیا بھر پر واضح کردیا کہ اگر عزم و حوصلہ متزلزل نہ ہو اور ہمت جواب نہ دے تو کٹھن ترین سفر بھی طے کر کے منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔آج ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہم جان سکیں گے کہ ہم کسقدر تیز رفتاری سے تنزلی کیجانب سفر کر رہے ہیں ۔اب آپ ذرا غور کریں کہ آج ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ اگر آج اور ابھی سے ہم اپنے زمینی خُداﺅں سے علیحدگی اختیار کر لیں اور اُس لا فانی شے(قُرآن مجید) سے عملاً راہ نُمائی حاصل کرنے لگیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو پھر سے حاصل کر لیں گے اور یہ کام ذرا بھی مُشکل نہیں بس اِس کے لئے ایک کام کرنا ہے اور وہ ہے ۔۔۔ سوچنا ، سمجھنا ، عقل و فکر اور دانش سے کام لینا اور بس۔کیونکہ جب ہم نے اپنے ذہن سے کام لینا شروع کردیا تو نہ صرف ہمارے عقائد دُرست سمت اختیار کرلیں گے بلکہ حقیقی معنوں میں جنت کا حصول ممکن ہو جائےگااور قیام پاکستان کا اصل مقصد اپنی اصلی و حقیقی صُورت اختیار کر کے ہمارے سامنے آکھڑا ہو گا ۔یہی ہے ” دو قومی نظریہ“ جسے سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ہر پاکستانی کا فرضِ اول ہونا چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن