دو قومی نظریے سے ج±ڑی کہانیاں اور ہم

Mar 21, 2017

محمد اسلم خان....چوپال

ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جن کے عقائد ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں جن کا طرزِ زندگی ہر پہلو سے ایک دوسرے بالکل جدا ہے۔ یہ دو قومی نظریے کی عام فہم اور سادہ تعریف اور تفہیم ہے جو تخلیق و تشکیل پاکستان کی بنیاد بنی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اندرا گاندھی نے بڑے فخر اور تکبر سے اعلان فتح کرتے ہوئے اسی دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا اعلان کیا تھا۔گذشتہ دنوں بنگلادیشی جرنیلوں نے ناقص بھارتی ہتھیار اور گولہ بارود خریدنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے بنگالی کالی ماتا حسینہ واجد شدید دباو¿ کا شکار ہیں۔ ان کا بھارت کا دورہ دوبار ملتوی ہو چکا ہے، جو اب اپریل میں کسی وقت ہوگا۔ اس تناظر میں 'بنگلہ دیش میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل' والے کالم میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا"ڈھاکہ کے منظرنامے پر مسلم بنگال کی نئی صبح طلوع ہورہی ہے۔ نئے رنگ وروپ میں دوقومی نظریہ ازسرنوجنم لے رہا ہے۔آج بنگلہ دیشی فوج بھارت سے معاہدہ دوستی اورہتھیاروں کی خریداری پر مزاحمت کررہی ہے۔ کلکتہ کے عین سامنے ڈھاکہ میں ایک نیا پاکستان طلوع ہورہا ہے ۔حریت پسند بنگالیوں کا مقدس لہو سر چڑھ کربول رہا ہے"
اس پر قارئین اور بعض دوستوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ لاہور سے ایک مہربان طارق قریشی لکھتے ہیں کہ کالم نگار بنگالیوں کی سرشت کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔مواد اور معلومات کے پیمانے پر تیسرے درجے کا کالم ہے آج بھی ڈھاکہ مسجدوں کا شہر ہے' بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات ہوتے ہیں۔۔ بنگالیوں کی حریت فکراور شورش پسندی میں فرق اور تمیز نہیں کی گئی اس معاملے میں پاکستانی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے یکساں طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
سرحدی حد بندیوں 'فرخا بیراج پر بنگلہ دیش نے اپنی بات منوائی۔ بھارت ہو یا چین دونوں ممالک کے ہتھیار فرسودہ ہیں۔ بے ایمانی تو برصغیر کے باشندوں میں کوٹ کوٹ بھری ہے۔ چینی تو اپنی مثال آپ۔۔۔۔ہتھیاروں کی خریداری کے معاملے میں کمیشن کا مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ عالمی برادری نے بنگلہ دیش کی امداد کو آبادی کنٹرول سے مشروط کیا تو بنگالیوں نے جعلی اعداد و شمار سے آنکھوں میں دھول جھونک دی۔۔۔کردار نا ہمارا ہے نا ان کا۔۔۔۔ دونوں اطراف مساجد' تبلیغی اجتماع' حج عمرہ کی تعداد دیکھ لیں ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔۔۔جھوٹ 'دھوکہ 'جعل سازی ' ملاوٹ اور بدعہدی میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک اور ہمارے خوش فہم کالم نگار کو 'دو قومی نظریہ' پھوٹتا نظر آرہا ہے۔ دو قومی نظریے کا پاک افغان باڈر پر نظارہ کرلیں۔
لندن سے انٹرنیوز کے وقائع نگار مشتاق مغل نے بتایا کہ آپ نجانے کس دو قومی نظریے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بزرگ بنگالیوں کو چھوڑیں ان کی نئی نسل پاکستان اور پاکستانیوں سے شدید نفرت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سادہ زندگی کے عادی ہونے کی وجہ سے کفایت شعاری سے لندن میں جائیدادیں خرید کر کرائے پر چڑھانا بنگالیوں کا کاروبار ہے۔ انتہائی کنجوس ہونے کے باوجود کسی پاکستانی کو کرائے دار بنانا پسند نہیں کرتے، چاہے مہینوں مکان خالی پڑا رہے۔ کشمیری ہونے کی وجہ سے برس ہا برس سے ان کا کرائے دار ہوں۔ اب انکی رگ رگ سے واقف ہو گیا ہوں۔اس سے بھی بڑھ کر بنگالیوں کی ذہنیت بارے نیو جرسی میں پاکستانی ماہر امراض قلب ڈاکٹر شجاعت حسین نے بتایا کہ جن دنوں پاکستان سے جرم وفا میں جماعت اسلامی کے عمر رسیدہ بزرگوں کو پھانسیاں دی جا رہی تھیں، نماز فجر کے بعد میں نے امام صاحب سے ان شہدائے پاکستان کے بلندءدرجات اور حسینہ واجد کے دل میں رحم ڈالنے کی دعا کی درخواست کی، اس میں بنگالی النسل نمازی اکثریت میں ہیں ان سب کا ردعمل بڑا غیر متوقع اور جارحانہ تھا، وہ سب میرے پیچھے پڑ گئے کہ ان بزرگوں کو بالکل صحیح پھانسیاں جارہی ہیں یہ ہمارے قومی مجرم ہیں۔ پاک فوج کے ساتھی تھے 30 لاکھ بنگالیوں کے قاتل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جوانیاں متحدہ پاکستان میں گذاری تھیں اور بنگلہ دیش بنتے دیکھا تھا یہ کھاتے پیتے لوگوں کا علاقہ ہے اور فجر کی با جماعت نماز کا اہتمام کرنےوالے باعمل مسلمان ہوتے ہیں ۔اب اسی حوالے سے یکسر مختلف دوسرا نقطہ نظر ملاحظہ فر مائیں۔ حقیقی معنوں میں روشن خیال دانشور 'سانحہ مشرقی پاکستان پر منفرد اسلوب کی حامل کتاب 'البدر'کے مصنف اور استاد جناب سلیم منصور خالد نے پاکستان کے تناظر میں دو قومی نظریے کے حق میں دلائل کو عالمی سطح تک پھیلا دیا ہے۔ وہ مسلمان ممالک'انڈونیشیا اور سوڈان میں سے دو عیسائی ریاستوں 'مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی تخلیق کو بھی دو قومی نظریے کا احیا قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں "ہوتاہے شب و روز تماشا مرے آگے۔ دراصل ہماری بزعم خودنام نہاد ’روشن خیال‘ اشرافیہ نمک برابر اقلیت کویہ وہم ہے کہ وہ دانش،فہم، تاریخ اور عملیت پسندی کے سنگھاسن پربیٹھے ہیں اور باقی سب کیڑے مکوڑے محض ٹامک ٹوئیاں ماررہے ہیں۔ 1971میں سقوط، مشرقی پاکستان کے المیے کے بعد اندراگاندھی نے بڑہانکی کہ ”ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے“مجھے اچھی طرح یاد ہے ا±س زمانے میں ہمارے ترقی پسند دوستوں کو اندرا کے اس جملے پر بہت پیار آیا، اوراب تک وہ ’محبت‘ کے اس رنگ سے نکل نہیں سکے۔ مگر پاکستان کوتوڑ کر اندراگاندھی دو قومی نظریے کو شکست نہ دے سکیں۔
اگر ایسا ہوتا تو مشرقی بنگال (بنگلہ دیش) اور مغربی بنگال (یعنی ہندوبنگال) ایک ہوچکے ہوتے، مگر ایسا ایک دن کےلئے بھی نہیں کیاجاسکا۔ اور اندرا کاخواب چکناچور ہوگیا اور آج بنگالی قوم پرستی کو قدم قدم پر مسلم بنگلہ دیشی قوم پرستی سے ٹکرانا پڑ رہا ہے۔ (جاری)

کچھ خودساختہ دانشور گاہے بگاہے ’دوقومی نظرےے کی موت‘ کاطبلہ بجاتے رہتے ہیں، لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ جب بارک اوباما صدربنے تو انہوں نے قاہرہ جاکر دنیا بھر کے مسلمانوں کوکیوں مخاطب کرنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے امریکی، افریقی،ایشیائی یاعرب مسلمانوں کو خطاب نہیں کیا، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے دوبدوباتیں کیں۔یعنی پوری دنیا کے مذاہب اورتہذیبوں نے اوباما کی قیادت میں ایک قوم، اورمسلمانوں کودوسری قوم کے طورپر تسلیم کرکے مکالمہ کیا۔


یہی چیز دوقومی نظریہ ہے۔ ہمارے روشن خیال دانشوروں کودراصل اس لفظ ہی سے چڑ،بےزاری یانفرت ہے کہ مسلمانوں کوایک قوم کی شکل میں شناخت کیا جائے' بلایا، پکاراجائے۔
اب صدرٹرمپ نے پھر مسلمانوں ہی کومخاطب کرکے اپنے نسل پرستانہ اور متعصب ذہن کومتحرک کیا ہے۔ ٹرمپ کایہ رویہ اورلائن آف ایکشن بھی درحقیقت دوقومی نظرےے کی توسیع ہے۔انگریزوں یاعیسائیوں نے ملکوں کے ملک فتح کئے، عیسائیوں نے فتوحات کے جھنڈے گاڑے، مگر کبھی ’عیسائیت کے نام پر کسی ملک کودوام نہ بخشا۔ ابھی چند سال قبل انڈونیشیا کے علاقے مشرقی تیمور کو عیسائی ریاست کے طورپر وجودبخشاگیا،سوڈان کو دولخت کرکے جنوبی سوڈان کے نام پر دوسری عیسائی ریاست تخلیق کی گئی یہ بھی دو قومی نظریہ ہی تو ہے، عین یورپ کے قلب میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کےلئے بوسنیا کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا اور نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی سے اعلان کیا گیا کہ ہم یورپ میں کسی مسلم ریاست کا وجود برداشت نہیں کرسکتے۔ یورپی یونین کی رکنیت کی راہ میں واحد رکاوٹ مسلم ترکی کی دینی شناخت ہے جس نے مہذب یورپ کو جغرافیائی حقیقتوں کا انکار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ہمارے نام نہاد روشن خیال اور ترقی پسند دانشور بھی یورپی فکری غلامی کے باعث زمینی حقائق جھٹلائے چلے جا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما اور یونیورسٹی دور کے کرم فرما شاہد شاہ گیلانی اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں خاں صاحب'اس وقت ایک وزیر خارجہ بھی ہوتا تھا اس سے بھی پوچھ لیں وہ بھی ہیلری سے سر ملاتے تھے ۔طارق چودھری فرماتے ہیں"جہاں ویزہ کلیئرنس دینے والے اصل 'مالکان' کا تذکرہ ہوتا وہاں پر جل جاتے ہیں۔وہاں بات اشاروںاور استعاروں میں ہوتی ہے۔ قلمی جہاد کی حدود بھی بس اتنی ہی ہیں۔زرداری سے پیپلز پارٹی تک ختم ہو جاتی ہیں
دوبئی سے ساتھی اخبار نویس سعدیہ عباسی انکشاف کرتی ہیں کہ آپ ان بھارتی ایجنٹوں کے بارے میں بھی لکھیں جن کی مدد سے یہ ویزے جاری کیے گئے تھے جو دوبئی میں پاکستان کے ایک بڑے ٹی وی چینل کے کرتا دھرتا ہیں۔ ہم میں سے بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ ایک ٹی وی چینل کا دوبئی میں مسلمان سی ای او بھارتی شہری اور بھارتی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ہے اوراپنے اثر رسوخ کی وجہ سے دوبئی جیسے اہم سٹیشن پر وہ پاکستانی قونصل خانے میں نہ صرف اثرورسوخ رکھتا ہے بلکہ بھارتیوں کو ویزے بھی جاری کراتا ہے۔
عارف عباسی احمدی نژاد کے صدر ٹرمپ کے نام خط کی افادہ عام کے لئے اشاعت پر خوش ہیں۔ چودھری احسن پریمی لکھتے ہیں کہ اہم قومی سانحات کی رپورٹس شائع کی جانی چاہئیں
ایک اورمہربان فرماتے ہیں حسب روایت آپ کا کالم دور حاضر کی سب سے بڑی سنسنی خیز کہانی ہے ۔ آنے والی نسلیں ہمارے دور کے بارے میں صرف اتنا کہہ کر ہم کو مطعون کریں گی کہ یہ وہ لوگ تھے جب زرداری صدر ہوتے تھے -
آپ نے انتہائی حساس موضوع پر حقائق بے نقاب کئے ہیں ، جو ظاہر ہے ان لوگوں کے علم میں ہیں جو براہ راست سیکورٹی کے ذمے دار ہیں اور اگر وہ اس وقت نوٹس نہیں لے سکے اور اب بھی مجبوریوں نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں تو عوام سوائے دعا کے کیا کر سکتے ہیں - آپ نے صاف صاف لکھا تو ہے کہ اس وقت جنرل کیانی کھدر کا چغہ پہن کر کتب بینی کا شوق فرمایا کرتے تھے - ان کے بارے میں اس وقت کئی معتبر جرنلسٹوں کے کالم پڑھ کر یوں لگتا تھا جیسے جنرل کیانی ، نسیم حجازی کے ناولوں کے کوئی ہیرو ہیں ؟ اب بظاہر کچھ کچھ ایسے آثار ہویدا ہو رہے ہیں جنہیں بہتری کی طرف ایک قدم کہا جا سکتا ہے ، سو اچھی امید رکھنا چاہیئے اور اگر اب بھی مواخذہ نہ ہوا تو پھر شاید کبھی نہ ہو --باقی آپ نے آخر میں موم بتی مافیا وغیرہ کی بات لکھی ہے ، وہ میں پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ آپ نے از راہ تفنن لکھا ہے کیونکہ ---
جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوںاور آپ تواتر سے پاکستان دشمنوں کو بے نقاب کر رہے ہیں ، یہ کوئی آپ کا پہلا کالم تو نہیں ہے -آپ جس طرح پاکستان دشمن قوتوں کو بے نقاب کر رہے ہیں ، آپ لاکھوں ، کروڑوں پاکستانیوں کی دعاﺅں کے حصار میں ہیں - ویسے بھی ہمارے لوکل شاعر کا کہنا ہے --
اللہ نہ مارے سوہنی، تیرے ویرن کس جوگے -(اللہ نہ مارے سوہنی، ورنہ تیرے بھائیوں میں اتنی ہمت اور طاقت کہاں کہ مجھے ماریں )
بہت سے بزرگوں نے دعاو¿ں کے تحائف بھجوائے ہیں اشک بار آنکھوں سے پاکستان کی سلامتی کے لئے خدائے مہربان کے حضور گڑگڑاتے ہیں کہ

اے خاصہ خاصانِ ر±سل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے

مزیدخبریں