قارئین صد شکر ہے کہ آج سے تقریباً ستر سال پہلے علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو آزاد ملک کا تصور دیا جسے قائداعظم نے آگے بڑھ کر عملاً تصویر کر دیا۔اپنی شبانہ روز محنت سے اس میں رنگ بھرا اور مملکت ہمیں عطا کر دی۔ اس حوالے سے آج کل ملک میں مختلف تقریبات منائی جارہی ہیں۔ تحریک آزادی کے مجاہدین کے کارنامے یاد کئے جارہے ہیں، ان کی قربانیاں دہرائی جارہی ہیں لیکن سوچنا یہ ہے کہ یاد تو اُن باتوں کو کیا جاتا ہے جو بھول گئی ہوں تو کیا ہم نے اپنے بزرگوں کے وہ تمام کارنامے، کردار اور قربانیاں بھلا دی ہیں جن کو یاد کرنے پر ہمارا اس قدر زور لگ رہا ہے؟ زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جن کے بڑوں کے کارنامے ان کی نَس نَس میں بسے اور رَچے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہوا یہ کہ ہماری منزل پاکستان تھی وہ مل گئی۔ اب پاکستان کی منزل ترقی کے حوالے سے کون سی ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔ قرارداد کے بعد دونوں مفکر و مدبر کی چار آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ چاروں طرف ایسے ایسے گھمبیر اور پُراسرار جھگڑے تنازعے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ لگتا ہے آزادی کے بعد بھی خدانخواستہ ہندو مسلم فساد ختم نہیں ہوا بلکہ جاری و ساری و طاری ہے۔ بات بات پر ہم وطنوں کا آپس میں دست و گریباں ہونے کا وہ عالم ہے کہ پوری قوم دست بدستِ دیگرے پا بدستِ دیگرے ہو کر رہ گئی ہے اور ملک کو کچی مٹی کا پیالہ سمجھ لیا گیا ہے۔
’’اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا‘‘
اور جب سچ مچ ملک ٹوٹ کر آدھا رہ گیا تو پوری دنیا کے بازاروں سے بھی ڈھونڈ کر لا نہیں سکے۔
’’اب اسے ڈھونڈو چراغ رُخ زیبا لے کر‘‘
کشمیر ہنوز ظالم دشمن کے دانتوں تلے دبا ہوا ہے ایسے حالات میں ہم سمجھتے ہیں قائدین کے کارناموں کو یاد کرنا کریڈٹ نہیں بلکہ انہیں بھول جانا زیادہ بڑا جرم ہے مگر اپنا جرم مانتا کون ہے؟ علامہ اقبال نے 1938ء کے جلسہ آلہ آباد میں دوقومی نظریہ یہ کہہ کر پیش کیا کہ ہمارا مذہب، تہذیب، ثقافت، روایات اور تمدن ہندوئوں سے قطعی طور پر الگ ہے۔ ہمیں الگ ملک کی ضرورت ہے۔ یہ پانچ الفاظ نہ تھے بم کے دھماکے تھے۔ انگریز اور ہندو چکرا کر رہ گئے لیکن بعد میں جب آزادی حاصل کر لی گئی تو کچھ ہی عرصہ بعد ہندوئوں کی بچھڑی ثقافت دوبارہ مسلمانوں سے بغلگیر ہو گئی۔ انگریزی تہذیب دفتروں سے نکل کر بتدریج گھروں میں در آئی۔ مذہب چند لوگوں میں رہ گیا۔ ہماری اسلامی روایات طاقِ نسیاں ہو گئیں اور تمدن وہی انگریز کالونیوں والا رہ گیا گویا مسلمان اپنے ہی ملک میں نوآبادیاں ہو گئے۔ چلئے ٹنٹا ختم ہوا، جذبہ حب الوطنی، قائدین کے افکار، اکابرین کی قربانیاں اور اقبال کا فلسفہ خودی جیسے الفاظ ڈکشنری میں ڈھونڈنے کو رہ گئے۔ حیرت ہے اتنا عرصہ گزر گیا کرپشن میں لت پت ہم وطنوں نے کبھی ایک دوسرے سے یہ نہیں پوچھا کہ اے میاں یہاں جو نصف صدی پہلے ہندوئوں اور انگریزوں کی دوہری غلامی کے پنجوں شکنجوں میں پھنسے ہوئے مسلمانوں نے اپنی روح و فکر کی آزادی کے لئے کام کیا، اپنے سیاسی تشخص کی تشخیص کی اور علاج دریافت کیا وہ کیا ہوا؟ مختلف سماجی بیماریاں، کرپشن، بیروزگاری، بے ایمانی، جہالت، دہشت گردی سب طول پکڑتی جارہی ہیں۔ لاکھوں قربانیوں کے خون سے خون رنگ وطن عزیز کا یہ ٹکڑا ابھی تک خون رنگ کیوں ہے؟ تو اس کا جواب ہمارے پاس یہ ہے کہ دراصل ہمارے عزیز ہم وطنوں نے آزادی کے اصل مفہوم کو بھلا کر اسے اپنی من مانیاں کرنے کی آزادی کے مفہوم میں برت لیا ہے۔ سوچا ہو گا وقت بدل گیا ہے اس کے تقاضے بدل گئے ہیں۔ قائداعظم کی عطاکردہ آزادی کا وہی پرانا مفہوم کیوں رہے؟ لہٰذا لفظ آزادی کو نئے مفاہیم سے آشنا کرنے کی ٹھانی اس کی پہلی قسط کو کرپشن میں آزادی کے حوالے سے یوں متعارف کرایا کہ اب معاشرہ وہاں پہنچ گیا ہے جہاں وہ 23 مارچ کی قرارداد سے مکمل طور پر ٹکرا گیا ہے بہرحال ابھی بھی وقت ہے بلکہ ایسا وقت آگیا ہے کہ نئی نسل کو اُن کی تاریخ اور پاکستانیت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے تاکہ اپنے اسلاف کی جان گُسل محنت، قربانیوں اور مشکلات و مصائب کا انہیں ادراک ہو سکے اور وہ وطن کی تعمیروترقی میں شبانہ روز محنت کریں ورنہ نئی نسل جس تیزی سے اپنی تاریخ سے، مشرقی روایات سے اور پاکستانیت سے دور ہٹتی جارہی ہے ہمیں ڈر ہے کہ اس پر فکری سکتہ طاری نہ ہو جائے اور ہم میں صدیوں تک اقبال و قائد پیدا نہ ہو سکیں۔ 23 مارچ کے حوالے سے اسے بتایا جائے کہ پاکستان کو سوچنے، اسے حاصل کرنے اور حاصل کر کے بنانے، سنوارنے میں ہمارے بزرگوں نے فکری، نفسیاتی اور جذباتی محاذ پر کتنی اعصاب شکن جنگیں لڑیں اور ہمیں اپنے آزاد وطن کی آزاد فضائوں میں آزادانہ سانس لینے کے قابل بنایا۔ بہرحال قارئین لمحہ موجود میں ضرورت اِس بات کی ہے کہ خوشحال پاکستان کی تعمیروترقی کیلئے ہر پاکستانی فرداً فرداً آگے بڑھے اور اپنا فرض پورا کرے۔ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں محض تقاریر و تقاریب برپا کر کے یومِ پاکستان منانے سے وطنِ عزیز ترقی نہیں کرے گا بلکہ اِس کی دائمی بقاء کیلئے امریکہ کی مالی اور نفسیاتی غلامی سے نجات، ہر سطح پر بے دریغ قربانیوں اور فرض شناسی کی اشد ضرورت ہے۔ حکمران ذاتی جھگڑوں اور اقتدار و کرسی کی جنگ کو چھوڑ کر وطنِ عزیز کو ہر قسم کے بحران سے نکالنے کیلئے دن رات ایک کر دیں۔