اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے میں نے کبھی کالعدم تنظیموں کیساتھ نرمی برتنے کی بات نہیں کی تاہم فرقہ وارانہ جماعتوں کے سربراہوں کیخلاف مقدمات ہی نہیں تو کس قانون کے تحت کارروائی کریں؟ کوئی ایسا قانون نہیں ہے کہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔ یہ قانون میں کمی ہے‘ سینٹ میں سحر کامران اور دیگر اپوزیشن ارکان کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے چودھری نثار نے مزید کہا دہشت گردوں کیخلاف کامیابیوں کا کریڈٹ لینے سب آجاتے ہیں مگر ناکامی پر انگلیاں وزارت داخلہ کی جانب اٹھتی ہیں، دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں، کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت ہے نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں ہے، میری ایک غیرارادی ملاقات پر بہت شور کیا گیا‘ وہی شخص سابق دور حکومت میں صدر اور وزراءسے ملتا تھا تب توکوئی نہیں بولا‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘ سکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا اس ایوان میں دیئے میرے بیان کو ایوان کے باہر نئے نئے معنی پہنائے گئے جس دن میں نے یہ بیان دیا تھا بہتر ہوتا اسی دن وضاحت مانگ لیتے۔ میں چیئرمین سینٹ سے یہ کہتا ہوں ہمیں حقائق اور دلیل کے ساتھ سچ بولنا چاہئے‘ ایوان میں جو بات ہو اس کا ایوان میں جواب آنا چاہئے۔ اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اس لئے خود ایوان میں آیا ہوں۔ میرے سابقہ بیان کی کاپی اس ایوان میں تقسیم کی جائے میں نے یہ کہا ہے دہشت گردوں سے نرمی برتنی چاہئے تو جوابدہ ہوں‘ میں نے کسی کو کمتر دہشتگرد نہیں کہا۔ میں نے دونوں ایوانوں میں کھل کر کہا سکیورٹی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کراچی کی صورتحال کے حوالے سے 28 اگست 2013ءکے اخبارات نکال لیں‘ ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں میں نے وزیراعلیٰ سندھ کو کپتان کہا‘ رینجرز ہیڈ کوارٹرز‘ گورنر‘ سینئر سیاسی رہنماﺅں‘ وزیراعلیٰ سمیت سب سے ملاقاتیں کیں۔ میں نے سی ایم سے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے۔ سب کریڈٹ آپ کا ہے۔ قائم علی شاہ پر بہت دباﺅ تھا لیکن انہوں نے عمدہ کام کیا۔ فیصلے وفاقی حکومت نے کئے‘ وزارت داخلہ کا بنیادی کردار تھا لیکن افواج پاکستان‘ سول آرمڈ فورسز‘ انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ عوام‘ پولیس اور صوبائی حکومتیں سب ساتھ نہ ہوتیں تو صورتحال بہتر نہ ہوتی۔ پانچ سے چھ دھماکے روزانہ ہوتے تھے‘ دھماکہ نہ ہونا بڑی خبر ہوتی تھی۔ اب مہینوں‘ ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے‘ شمالی وزیرستان سے دہشت گرد حملے ہوتے تھے۔ کیوں کسی نے کارروائی نہیں کی‘ دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں۔ ان کے سہولت کار اور ہیلپرز کے خلاف بھی کارروائی ہوئی ہے۔ ہزاروں لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ کئی کے خلاف کیسز بنے‘ کئی پر ہماری نظر ہے۔ سکیورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔ کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں۔ جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہے اس کو پکڑا جائے گا یا ختم کیا جائے گا۔ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں نہیں ہے‘ پہلے شمالی وزیرستان میں ان کے ہیڈ کوارٹرز تھے۔ فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث تنظیموںکے رہنما تو کالعدم ہو جاتے ہیں وہ بھی اسی طرح کیس بھگتتے ہیں جس طرح دہشت گرد لیکن ان کے ورکرز اور پیروکاروں جن پر الزام نہیں ہوتا ان کے خلاف کارروائی کے لئے قانون نہیں۔ کیونکہ وہ دہشتگردی میں ملوث نہیں ہوتے۔ یہاں کہا گیا میں جماعتوں سے ملتا ہوں‘ جن سے میں ملا وہ جے یو آئی (ف) ‘ جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کے ساتھ آئے۔ سابقہ حکومتوں کے وزراءسے جب وہ ملتے رہے تب تو شور نہیں ہوا۔ اس وقت کے صدر سے بھی ایک صاحب ملے ان کی تصاویر بھی موجود ہیں تب تو کسی نے بات نہیں کی۔ ایک صاحب نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تب کسی نے کارروائی نہیں کی۔ ایک غیر ارادی ملاقات میں وہ آگئے اور خاموش بیٹھے رہے تو اس پر شور کیا گیا۔ دہشتگرد تنظیم کی تو کوئی گنجائش نہیں لیکن فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث لوگوں کے حوالے سے قانون میں فرق ہے۔ دونوں ایوانوں میں نیا قانون لانے کے لئے ذمہ داری متعلقہ اداروں کو دی ہے تاکہ دہشتگرد فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف ضروری کارروائی ہوسکے۔ جب حکومت کسی کو کالعدم تنظیم ڈیکلیئر کرتی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے‘ اس تنظیم کو اپیل کا حق بھی ہے۔ ایک فرقہ وارانہ تنظیم کا کیس ابھی بھی چل رہا ہے۔ معاملہ ہائیکورٹ میں ہے‘ میں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی۔ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہئے اور پاکستان کو درپیش زندگی اور موت کے مسئلے پر مل کر پیش رفت کرنی چاہئے۔ مزید برآں سینٹ اجلاس میں الیکٹرونکس‘ ٹیکسٹائل مصنوعات سمیت دیگر اشیا کی سمگلنگ پر تحریک التوا پیش کی گئی۔ قبل ازیں اپوزیشن ارکان نے وفاقی وزیر داخلہ کے دہشتگردوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے حوالے سے دیئے بیان پر تنقید کر تے ہوئے کہا دہشت گرد بار بار حملہ آور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف بلاتفریق کارروائی نہیں کی جاتی۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے دس جنوری 2017ءکو وزیر داخلہ کی جانب سے ایوان بالا میں دیئے بیان جس میں انہوں نے ملک میں کالعدم دہشتگرد گروہوں اور کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کے درمیان فرق کھینچا‘ پر بحث کیلئے تحریک پیش کی جس میںبحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر سحر کامران نے کہا وزیر داخلہ کی ملاقاتیں کالعدم تنظیموں کے رہنماﺅں سے ہوئیں جس کی وہ مختلف توجیہات پیش کرتے ہیں۔ دہشت گرد بار بار حملہ آور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے خلاف بلا تفریق کارروائی نہیں کی جاتی‘ کالعدم دہشت گرد گروہوں اور کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق نہیں کرنا چاہئے۔ بعض تنظیمیں اب بھی کام کر رہی ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا دوسرے ملکوں میں دخل اندازی کرنے کے لئے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کا فلسفہ کار فرما ہے۔ ضیاءالحق کے دور میں جو بیج بوئے گئے اس کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں۔ پرائیویٹ مسلح گروپوں کو پاکستانی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ تنظیمیں رفاہی اداروں کے روپ میں بھی سرگرم ہیں۔ حکومت کے خلوص کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ عتیق شیخ نے بتایا کہ ہمارے دشمن ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی‘ جونا گڑھ‘ حیدرآباد اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے نمائندوں کی نشستیں بھی اس ایوان میں مختص کرنے کے لئے قرارداد پیش کرنی چاہئے جس طرح بھارت کی اسمبلی میں کی گئی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا دہشت گرد ملک کے دشمن ہیں۔ رفاہی کام کرنے والوں میں کچھ عناصر کی وجہ سے سب کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ چوہدری تنویر نے کہا سابق دور میں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی‘ دہشتگردی کی لعنت کو کافی حد تک کم کردیا گیا ہے۔ جو لوگ ملک کی خدمت کر رہے ہیں ان کو سراہنا چاہئے۔ کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا اچھے مدارس پر کوئی اعتراض نہیں‘ ہمارا اعتراض کالعدم تنظیموں پر ہے جنہوں نے فرقہ وارانہ قتل و غارت کی ہے۔ کالعدم تنظیموں کے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا دہشتگردوں کے سہولت کار اشرافیہ میں شامل ہیں۔ ان کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔ جو بھی ان کے سہولت کار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ سہولت کاروں کے بارے میں بے شک ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔ ان کو بے اثر کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی میں کمی آئی ہے اس کے لئے جس جس نے بھی کردار ادا کیا ہے ان کو سراہتے ہیں۔ سلیم ضیاءنے کہا وزیر داخلہ نے جس طرح مشکل حالات میں اپنا کردار ادا کیا ہے اس کو سراہا جانا چاہئے۔ حالات اس قدر خراب تھے لوگ عید کی نماز پڑھنے بھی نہیں نکلتے تھے‘ اب کراچی اور سندھ میں بھی امن ہے۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ سابق حکومت میں آنیاں جانیاں کرنے والے لوگ تھے‘ آج حکومت کام کر رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو چودھری نثار سے مسئلہ ہے‘ ان پر تنقید ضرور کریں لیکن اختلاف برائے اختلاف نہ کریں‘ تعمیری بحث ہونی چاہئے۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبر نگار خصوصی) وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے”سپاٹ فکسنگ“ میں ملوث تمام کرکٹرز کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کی منظوری دے دی۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ بھی ہدایت کی ہے سپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے ساتھ ان بکیوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو اس گھناﺅنے کاروبار میں ملوث ہیں۔ اس بات کا فیصلہ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار کی زیرصدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں سیکرٹری داخلہ، ایڈووکیٹ جنرل، نادرا، پی ٹی اے، ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کے سینئر افسر شریک تھے۔ ای سی ایل پر ڈالے جانے والے کھلاڑیوں میں شرجیل خان، خالد لطیف، ناصر جمشید، شاہ زیب حسن خان اور محمد عرفان شامل ہیں۔ سپاٹ فکسنگ کے معاملے پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے وزیر داخلہ کو بتایا گیا خالد لطیف اور محمد عرفان نے ایف آئی اے کو اپنے بیان ریکارڈ کرا دئیے ہیں جبکہ دیگر کھلاڑی کل اپنے بیانات دیں گے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے پی ٹی اے حکام کو ہدایت جاری کی کرکٹ میں جوا لگانے اور اس کو فروغ دینے والی تمام ویب سائٹس کو بھی بند کرنے کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس گھناﺅنے کاروبار کا سدباب کیا جا سکے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی سپاٹ فکسنگ معاملے کی ہر پہلو سے شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں تاکہ پاکستان کا نام بدنام کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔ انہوں نے کہا اس معاملے کی تفتیش میں زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کی جائے اور کسی بھی ملوث شخص کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے۔ ایف آئی اے حکام نے نادرا بلڈنگ کیس پر اب تک کی پیش رفت سے وزیرِ داخلہ کوآگاہ کیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے ہدایت دی آئندہ نادرا کے دفاتر کے لئے کوئی بھی عمارت کرائے پر حاصل کرنے کی بجائے اپنی عمارت تعمیر کرنے کو ترجیح دی جائے۔ اجلاس میں برطانوی ہوم سیکرٹری کے دورہ پاکستان کے سلسلے میں کئے جانے والے سکیورٹی انتظامات اور دورے کے دوران امیگریشن، کاﺅنٹر ٹیررزم اور ہیومن ٹریفکنگ جیسے مختلف امور میں تعاون کے فروغ کے لئے ممکنہ دوطرفہ معاہدوں پر غور کیا گیا۔لاہور سے سپورٹس رپورٹر کے مطابق سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث پانچ مشتبہ کھلاڑیوں محمد عرفان، شاہ زیب حسن ، خالد لطیف ، شرجیل خان اور ناصر جمشید کے نام ای سی ایل میں شامل کردئیے گئے ہیں۔ ایف آئی اے نے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی تحقیقات کے دوران مبینہ طور پر ملوث 5 کھلاڑیو ں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کیلئے وزارت داخلہ سے سفارش کی تھی۔