صاحبو! یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان انگریز حکمرانوں کی غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ حصول آزادی کی لہر بیدار ہو چکی تھی۔ بنیا بھی متحرک نظر آرہا تھا۔ اس کا کردار کھل کر معاشرہ کے سامنے آ چکا تھا۔ اس کے خیالات اور رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا۔ اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی اس کی گھٹی میں شامل تھی۔ عیاری‘ مکاری اور فریب اس کے ہتھیار تھے۔ سازشوں کے جال بننا اس کا وطیرہ بن چکا تھا۔ یہ مسلمانوں کو دیوار سے لگا کر رکھنے کا خواہش مند تھا۔ اس کے کھانے کے دانت کچھ اور دکھانے کے کچھ اور تھے۔ بنیا اکثریت کے بل بوتے پر پورے ہندوستان پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ادھر مسلمان بھی اس کے ارادے جان چکے تھے۔ انہیں خبر تھی کہ بنیا انگریز کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دے گا۔ مسلمانوں کو اپنا تشخص عزیز تھا وہ بحیثیت قوم جینا اور مرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کا مؤقف تھا کہ اسلام اور ہندو مت دو الگ مذہب ہیں اور مسلمان یہاں کی اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ اسی لئے مسلم لیگی قیادت دو قومی نظریہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے لئے الگ ملک کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی ان دنوں مسلم لیگ کو پرعزم‘ پر خلوص‘ دیانتدار اور جرات مند قیادت میسر تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس سیاسی قیادت کی جدوجہد تحریک کاروپ دھار گئی۔ اس تحریک کا مقصد ایسی اسلامی ریاست کا قیام تھا جہاں مسلمان انہیں درپیش مسائل بحیثیت قوم حل کرنے کی پوزیشن میں ہوں اور مسلمان اپنے عقائد‘ روایات اور اصولوں کی روشنی میں آئین بنا کر اس کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے تحریک پاکستان میں نوجوان بھی اپنا کردار ادا کر رہے تھے جن میں حمید نظامی نمایاں نظر آرہے تھے۔ حمید نظامی تحریک پاکستان کے سرگرم رکن تھے وہ زمانہ طالب علمی میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان کیلئے کردار ادا کرتے رہے۔ ان کی صدارت میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے نوجوانوں کا رخ تحریک پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ حمید نظامی اپنی ذات میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت بھی اختیار کی اور مسلم لیگ کے مؤقف کی وضاحت کیلئے دیہاتوں کے دورے بھی کئے۔ قائداعظم محمد علی جناح ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔حمید نظامی نے دو قومی نظریہ کو تقویت پہنچانے ‘ تحریک پاکستان کو مضبوط بنانے اور مخالفین پاکستان سے ٹکر لینے کیلئے نوائے وقت کو میدان میں اتارا جو مسلم لیگ کا میڈیا محاذ ثابت ہوا۔
پانچواں درویش پھر بولا مسلم لیگی قیادت ایک نظریاتی ریاست کیلئے مصروف جدوجہد تھی۔ یہاں تک کہ 23 مارچ1940 ء کا دن آ گیا۔ اس دن قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد مسلم لیگ کی سیاسی تحریک ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔ مسلم لیگ کے زیراہتمام اجلاس منعقد ہونے لگے جس میں قیام پاکستان کے مطالبے نے زور پکڑا کیونکہ بنیا تقسیم ہند کے خلاف تھا۔ اکھنڈ بھارت اس کا خواب تھا۔ یہ کسی بھی صورت پاکستان کا قیام نہیں چاہتا تھا۔ اسکی مخالفت میں بھی شدت آ گئی۔ اسی لئے اسکی سیاسی جماعت کانگرس کا ردعمل بھی شدت سے سامنے آیا۔ اس ردعمل کا اندازہ مسلم لیگی قیادت کے علاوہ حمید نظامی کو بھی تھا اسی لئے انہوںنے 23 مارچ کے دن ہی نوائے وقت کا اجراء کیا۔ نوائے وقت نے شروع دن سے مسلمانوں اور مسلم لیگ کی ترجمانی کے فرائض سنبھالے۔ بنیا کی شاطرانہ چالوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان کے حق میں مسلسل لکھا۔ ہندوپریس کا منہ توڑ جواب دیا۔ گاندھی کے نظریات کو بھی ناکام بنانے کی طرف توجہ مبذول رکھی۔ ہندو لیڈروں کے عزائم کا پردہ چاک کیا۔ حمید نظامی نے نوائے وقت کے اداریوں کے ذریعے مسلم ریاست کے تصور کو تقویت پہنچائی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی نوائے وقت حق گوئی کی پالیسی پر قائم رہا۔ حمید نظامی کے بعد ان کے بھائی اور نظریاتی ساتھی مجید نظامی نے نوائے وقت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ انہوں نے بھی نوائے وقت کو حق گوئی کی پٹڑی سے نہ اترنے دیا۔ مجید نظامی ایک لمبے عرصے تک نوائے وقت کے ایڈیٹر رہے۔ کوئی مفاد کوئی دباؤ کوئی مصلحت ان کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنی۔ نوائے وقت جابر حاکم کے سامنے بھی کلمہ حق کہہ کر مصروف جہاد رہا۔ مجید نظامی نے آنے والی نسلوں کو دو قومی نظریہ کی افادیت سے آگاہ رکھنے کیلئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کیا۔ نوائے وقت آج بھی اپنی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ہم ہر سال 23 مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہیں۔ اس دن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بنیا آج بھی ہماری ہمسائیگی میں موجود ہے۔ اس نے آج بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا وہ آج بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ پاکستان کو الجھائے رکھنا آج بھی اس کی پالیسی میں شامل ہے۔ نوائے وقت آج بھی اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ حکومت آج بھی مسلم لیگ کی ہے۔ اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔