خبر کے مطابق قومی ائیر لائن کے طیارے پی کے 749کے ہوسٹ تنویر گلزار سے پیرس میں مبینہ طور پر منشیات برآمد ہونے کے باعث انہیں گرفتار کر لیا گیا۔اس واقعہ سے یقیناً پاکستان اور تابناک روایات کی حامل قومی ائیر لائن کی ساکھ کو انتہائی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔مسلسل خسارے سے دوچار اس ائیر لائن کا ماضی انتہائی تابندہ اور قابل فخر روایات سے مزّین ہے۔حیران کن پہلو ہے کہ جہاز کے ٹیک آف سے پہلے جہاز،مسافروں اور عملہ جامع تلاشی ،سیکورٹی چیکنگ اور سکرینگ کے مراحل سے گزرتا ہے ۔پھر ایسی ملک دشمن کالی بھیڑوں کی پہچان کیوں کر ممکن نہ ہوئی؟ائیر لائن کو ماضی کے جھروکوں سے دیکھا جائے تو اس کا قیام 23اکتوبر 1946کواورینٹ ائیر ویز کے نام پر ہوا۔10جنوری 1955کونیشنلائزڈ ہو کر انٹر نیشنل ائیر لائن بنی۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پُرکشش خصوصیات اور اصلاحات کی بنا پر دنیا کی بہترین ائیرلائن کی صف میں جا کھڑی ہوئی۔نیو یارک میں پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کے بارے موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ عظیم الشان ہوٹل خریدنا چاہتا تھا مگر پی آئی اے نے مجھ سے چھین لیا۔اس کا مجھے افسوس رہے گا۔مگر آج گوناں گوں وجوہات کی بنا پر اس کا مجموعی خسارہ 400 ارب سے بھی زیادہ ہے۔ مالی دشواریوں کے سبب حالیہ دنوں میں امریکہ کیلئے بھی اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔آج اس کی معاشی بد حالی اور زبوں حالی افسوسناک ہو چکی ۔آمدن کا ادارہ خساروں میں مبتلا ہے۔بہت سارے طیارے کسی دوسری ائیر لائن سے کرائے پر لئے گئے ہیں۔ماضی کے اس عظیم قومی اثاثہ کا ماضی جتنا تابناک اور قابل فخر تھا آج اتنا ہی مایوس کن ہو چکا ۔جس کی بڑی وجہ دنیا کی فضاؤں پر راج کرنے والی ائیر لائن کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر اس میں ضرورت سے زیادہ من پسند ملازمیں کی تعیناتی ہے۔اس وقت پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد 14,500کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔جو کہ عالمی ہوا بازی کے اُصولوں کے مطابق ایک سو پچیس جہازوں کیلئے کافی ہیں۔جبکہ پی آئی اے کے پاس کل آپریشنل طیاروں کی تعداد اڑتیس ہے۔ملازمین کا بوجھ ادارے کی صلاحیت اور آمدن کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ملازمین کے جمِ غفیر کے باوجود حالیہ ایسے قومی دشمن واقعہ کا وقوع پذیر ہونا افسوس نا ک امر ہے۔