”بالم آن لائن“

عمران خان صاحب نے بالآخر کراچی پر توجہ دینا شروع کردی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دو روز وہاں گزارے ہیں۔ تحریک انصاف کی رکن سازی کی مہم میں اس شہر کے گنجان آباد علاقوں میں گھوم کر ا پنے چاہنے والوں کے دل گرمائے اور اس شہر سے روانہ ہونے سے قبل ڈاکٹر عامر لیاقت صاحب کو اپنے ساتھ ملاکر کئی لوگوں کو حیران وپریشان کر ڈالا۔
ڈاکٹر صاحب جب مجھ ایسے گنہگاروں کو فہم دین عطا کرنے کی خاطر آج سے تقریباً 12سال قبل ٹی وی پر نمودار ہونا شرع ہوئے تو میں نے انہیں عقیدت سے ”بالم آن لائن“ کہا۔ ان کے چاہنے والے میری اس حرکت سے بہت ناراض ہوئے۔ میری بچت مگر اس لئے ہوگئی کہ ان دنوں میں پرنٹ میڈیا چھوڑ کر ”ٹی وی صحافت“ کی جانب منتقل نہیں ہوا تھا۔ ایسا ہوگیا ہوتا تو عامر صاحب کے پرستاروں کو گمان ہوتا کہ شاید میں ان کے حسد میں مبتلا ہوا ہذیان بک رہا ہوں۔ ”ٹی وی صحافت“ شروع کی تواسی باعث ان کا ذکر چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر صاحب غضب کے عالم میں اپنے دشمنوں کو تمسخر وتحقیر کے تیروں سے پاش پاش کر ڈالتے ہیں۔ کسی پر توہینِ مذہب کا الزام لگادیں تو اس کاجینا محال ہوجاتا ہے۔ ربّ کا لاکھ لاکھ شکر کہ میں ہمیشہ ان کے خوف میں مبتلا رہا ہوں۔ ویسے بھی میرے ساتھ ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے والا معاملہ ہے۔ غیر معروف وبے اثر صحافی ہوتے ہوئے ان کے غضب سے محفوظ رہا۔
وہ اب تحریک انصا ف میں باقاعدہ شامل ہوگئے تو ماضی میں ان کے غضب کا نشانہ بنے کئی لوگوں نے تحریک انصاف اور عمران خان صاحب کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کی کہی باتوں کو یوٹیوب کی مدد سے ڈھونڈ کر حساب برابر کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان کے حملوں کو بہت خوش دلی سے برداشت کررہے ہیں مگر چند ہی روز میں حساب برابر کردیں گے لہٰذا وہ جانیں اور ان کے دشمن۔
ذاتی طورپر مجھے زیادہ پریشانی ویسے بھی مصطفےٰ کمال کے بارے میں لاحق ہوچکی ہے۔ ”مائنس- الطاف “ فارمولے کے عملی اطلاق کا وقت آیا تو ”نخلِ دار“ کے لئے موصوف نے اپنا سرپیش کیا۔ ٹی وی والے اپنے معمول کے پروگرام چھوڑکر ان کی پریس کانفرنسوں کو Live دکھانا شروع ہوگئے۔ کچھ دنوں کے لئے ایسا محسوس ہوا کہ نام نہاد ”شہری سندھ“میں ان کا مقام ومرتبہ لاڈلوں جیساہونے والا ہے۔ کراچی کی حرکیات کو تھوڑا جانتے ہوئے لیکن مجھے پورا یقین تھا کہ ان کی لگائی ”کمال کی ہٹی“ چل نہیں پائے گی۔ ”مائنس“ ہو جانے کے بعد سے کراچی کی سیاست میں جو خلاءپیدا ہوا ہے اسے ”مائنس“ کے بنائے بتوں سے پورا کرنے کی کوشش بذاتہی احمقانہ تھی۔ پنجابی کی کہاوت ہے کہ کشتیاں ملاحوں کے ساتھ غائب ہوجایا کرتی ہیں۔
ایم کیو ایم نامی کشتی 1986میں نمودار ہوئی تھی۔ اس کی نمو کے بیج 1960کی دہائی میں بودئیے گئے تھے جب کراچی کے بجائے اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ 1970کے انتخابات کے بعد سندھ میں دیہی اور شہری کے نام پر جو تقسیم پیدا ہوئی اسے ”کوٹہ سسٹم“ کی وجہ سے ناراض ہوئے نوجوان ہی محسوس کرسکتے تھے۔ اس جماعت نے اس غصے کو کمال خوبی سے جان کر سیاسی عمل میںاپنا حصہ لینے کے لئے بہت لگن اور مہارت سے استعمال کیا۔ ابنِ خلدون کی سمجھائی ”عصبیت“ کے کرشمے جو 1988میں ہوئے انتخابات سے 2013تک ہمارے سیاسی منظر نامے پر حاوی رہے۔
عروج کا مگر زوال بھی ہوتا ہے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر شہری حلقوں کا Demographic Profile اب وہ نہیں رہا جو قیامِ پاکستان کے بعد سے کم از کم 1990کی دہائی کے آغاز تک وہاں موجود رہا۔ آبادی کی بنیاد پر ابھرتی نئی حقیقتوں کو ایم کیو ایم سمجھ نہ پائی۔اپنی Core Constituency تک محدود رہی۔ اسConstituency کو اس نے خود کو ریاست کے اندر ریاست بن کر ا پنے قابو میں رکھنا چاہا۔ اس کے بانی کو ویسے بھی Top Downفیصلہ سازی کا جنون تھا۔جماعتی ڈھانچہ اسی لئے فسطائی طرز اختیار کرگیا جہاں ”قائد کا غدار موت کا حق دار“ بن جاتا تھا۔
ایم کیو ایم کی Core Constituency کی بے تحاشہ جائز شکایات اپنی جگہ اس سب کے باوجود موجود رہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ 1988سے 2013تک آئی تقریباً ہر حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم نے اعصاب تھکا دینے والے مذاکرات کے ذریعے اقتدار میں اپنے جثے سے اکثر کہیں زیادہ حصہ وصول کیا تھا۔ اس حصے نے مگر گولیمار اور لالوکھیت کی گلیوں سے اُٹھے چند لونڈوں کو ڈیفنس میں بنگلے دلوائے۔ دوبئی، کوالالمپور، بنکاک، کیپ ٹاﺅن اور ہوسٹن جیسے شہروں میں کاروبار جمانے کی سہولت فراہم کی۔ لندن، ٹورنٹو اور نیویارک میں ان کا شمار نسبتاً خوش حال مڈل کلاس میں ہونا شروع ہوگیا۔
ایم کیو ایم کے چند نمایاں رہ نماﺅں کی ذاتی ترقی اور خوش حالی کے تناظر میں ”ہمیں منزل نہیں رہ نما چاہیے“ والا نعرہ سیاسی طورپر لایعنی تھا جس کا ہدف اندھی شخصیت پرستی کے سواکچھ اور نہ تھا۔ لندن میں بیٹھے ”صنم“ کی پرستش ویسے بھی 2014کے بعد سے کراچی میں بیٹھ کر جاری رکھنا ناممکن ہونا شروع ہوگئی تھی۔ مصطفےٰ کمال کے لئے Space بن گئی۔ وہ نمودار ضرور ہوئے مگر اپنے قائد سے سیکھی رعونت وخودپسندی کے محکوم بنے رہے۔ سمجھ ہی نہ پائے کہ ایم کیو ایم کی Core Constituency کے لئے اب ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی جائز شکایات کے ساتھ ایک نیا بیانیہ تشکیل دے۔ اس بیانیے میں لسانی تشخص کے بجائے جدیدریاست کے شہریوں کے حقوق وفرائض کی بات ہو۔ نئی سوچ کے تحت منظم ہوا ایک دھارا جو کسی Mainstream پارٹی کے دریا میں شامل ہوکر ریاست کے ساتھ ایک نئے اور Grand Dialogue کا آغاز کرے۔
مصطفےٰ کمال اپنی رعونت کے غلام ہوئے یہ تاریخی فریضہ ادا نہ کر پائے۔ فاروق ستار میں قائدانہ صلاحتیں موجود ہی نہیں۔ ”بہادر آباد“ کو سنبھال نہ پائے۔ جب دل کے ٹکڑے ہزار ہوگئے تو یہاں وہاں گرے لوگوں کو لے کر ”ایک زرداری....“ نے سینٹ کے انتخابات میں اپنے جلوے دکھا دئیے۔ کمال کی ہٹی، پی ٹی آئی اور بہادر آباد اس ضمن میں قطعی بے بس نظر آئیں۔
سیاست کے ہر طالب علم کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ ایم کیو ایم کی سندھ کے حوالے سے اوّل وآخر حریف پیپلز پارٹی ہے۔ اس جماعت کی Core Constituency اپنے نقصان کو پیپلز پارٹی کا Gain نظر آتا برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ اسی لئے سینٹ کے انتخابی مراحل ختم ہونے کے بعد عمران خان Perfect Timing کے ساتھ کراچی تشریف لے گئے اور رونق لگا دی۔
ڈاکٹر عامر لیاقت کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بارے میں پھکڑپن کے بجائے ہم صحافیوں کے لئے ضروری ہے کہ کھلے ذہن کے ساتھ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کیا ”مائنس“ ہو جانے کے بعد پیدا ہوجانے والے خلا کو تحریک انصاف کراچی اور ”شہری“ کہلاتے سندھ میں پورا کر پائے گی یا نہیں۔ اس سوال کا مناسب جواب تحقیق کا طلب گار ہے اور میں کئی مہینوں سے کراچی نہیں گیا ہوں۔ سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اگر نام نہاد ”شہری سندھ“ کی نمائندہ اب تحریک انصاف بن گئی تو جواباً کیا نمودار ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں سوالات انتہائی اہم اور سنجیدہ ہیں۔ کاش مجھے کوئی شخص ان کے جوابات فراہم کرسکے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن