وزیر داخلہ احسن اقبال نادرا لاہور کی ایک تقریب میں خطاب کرر ہے تھے، یہ لائیو نشر ہونے لگا۔ مجھے ان کی باتوںمیں یوں دلچسپی پیدا ہوئی جیسے ا نہوںنے میرے دل کی ایک بات کہہ دی کہ جب کبھی ملک میں الیکشن ہونے لگتا ہے تو ایک منظم پروپیگنڈہ شروع ہو جاتا ہے اور الیکشن کے بارے میں بے یقینی کی فضا پیدا کی جاتی ہے،۔ کوئی نعرہ لگا دیتا ہے کہ پہلے احتساب ، پھر انتخاب، کہیں سے کوئی اور شوشہ سنائی دیتا ہے،۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس دھوکے میں رکھا جائے کہ الیکشن بر وقت نہیں ہوں گے تاکہ وہ اپنی انتخابی مہم یک سوئی سے نہ چلا سکیں۔اور یوں کسی ایک جماعت کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے جسے علم ہوتا ہے کہ یہ غیر یقینی کی باتیں محض افواہیں اور ، یہ مخصوص جماعت پوری دل جمعی سے الیکشن مہم چلاتی ہے اور اچھے نتائج حاصل کر لیتی ہے بلکہ میدان مار لیتی ہے۔
مجھے یادا ٓیا کہ اس ملک میں معین قریشی کو نگران وزیر اعظم کے لئے در آمد کیا گیا تو یہی شوشہ چھوڑا گیا کہ پہلے تو ایک لمبے عرصے تک احتساب ہو گا،پھر کلین اور صاف اور دیانتدار لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔ ملک معراج خالد بھی نگران وزیر اعظم بنے تو یہی حکمت عملی اپنائی گئی اور اس بار احتساب کا طوفان چلانے کی باتیں کی گئیں ، ایک ایسا نگران وزیر اعظم جو اسلام ا ٓباد سے حلف لے کر لاہور آیا تو اس کے دائیں بائیں دو نامی گرامی سمگلر اور قبضہ مافیا کے لوگ تھے۔ اس نگران وزیراعظم نے ان فرشتوں کے سائے میں کیا اور کیسا اور کس کا احتساب کرنا تھا، بس نری باتیں تھیں دوسروں کو بے وقوف بنانے کی۔ اور دھوکے میں مبتلا رکھنے کی۔
آج بھی کچھ ویسی ہی بلکہ کچھ بڑھ کر بے یقینی کا عالم ہے۔ پہلے تو کہا گیا کہ سینیٹ کے الیکشن نہیں ہو پائیں گے۔ یہ ہو گئے تو کہا جانے لگا ہے کہ بس ایک ٹیکنوکریٹ حکو مت آ رہی ہے جو دو تین سال میں کرپٹ مافیا کا صفایا کر دے گی۔ اور پھر کہیں جا کر الیکشن ہو پائیں گے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ن لیگ کے خلاف تو احتساب کی دھار تیز کر دی گئی ہے، اس کے بعد عمران ا ور زرداری کی باری ہے اور جب تک ملکی سیاسی فضا سے کرپشن کا صفایا نہیں ہو جاتا، نئے الیکشن نہیں کرائے جا سکتے کیونکہ ان لوگوں کے ہوتے ہوئے الیکشن ہوئے تو پھر یہی اسمبلیوںمیں پہنچ جائیں گے اور وہی کرپشن کا سونامی زور پکڑ لے گا۔ عام آدمی بڑا سادہ دل واقع ہوا ہے۔ وہ واقعی سے سوچنے لگتا ہے کہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ کرپشن خوروں سے تو نجات مل ہی جانی چاہئے۔ بھتہ خوروں سے بھی، کلاشنکوف اور ہیروئن مافیا سے بھی۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، ایسی نوبت کہاں آ پائے گی۔ جیسی روح ویسے فرشتے، جیسے عوام ویسے حاکم۔ یہ تو امر ربی ہے۔ اس لئے یہ دنیاا سی انداز سے چلتی رہے گی جیسے ہزاروں لاکھوں برس سے چلتی آئی ہے،نیکی کا راستہ انہیں کانٹوں سے ہی تلاش کرنا ہو گا ورنہ حالات کے ساتھ نباہ کرنا ہو گا۔
وزیر داخلہ احسن اقبال نے بڑی تفصیل سے ان سازشوں کا ذکر کیا ہے جو بے یقینی پھیلانے کے لئے پنپ رہی ہیں مگر انہوںنے ایک روشن امید کی کرن بھی دکھائی ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ کھیل ہمیشہ کھیلا گیا مگر الیکشن بر وقت ہوئے اور اگلے الیکشن بھی انشااللہ بروقت ہوں گے اور آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں گے ۔ انہوںنے لاہور نادرا کے دفتر میں اعلان کیا کہ وہ ا س محکمے کو سو نئی گاڑیاں ہدیہ کر رہے ہیں جن پر سوار ہو کر نادرا کی ٹیمیں دور دراز کے علاقوں تک پہنچیں گی اور جس کسی کا نادرا کا کارڈ اب تک نہیں بنا، یا کسی نے اس میں کوئی تبدیلی کروانی ہے تو یہ سہولت ان لوگوں کے دروازے تک پہنچائی جائے۔ مجھے احسن اقبال کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ کیا پتہ شناختی کارڈ ان کے ہی خلاف استعمال ہو جائیں مگر وہ ا س سہولت سے کسی کو محروم نہیں رکھنا چاہتے اور پاکستان کے ہر شہری کے آئینی حق کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ورنہ جن دنوں ہاتھ سے شناختی کارڈ بنتے تھے تو میں نے آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح وڈیروں کی حویلیوں میں شناختی کارڈ کی ٹیمیں دن رات جعلی کارڈ بنانے کے لئے مصروف رہتی تھیں۔ اب ڈیجیٹل دور ہے۔ جعلی شناختی کارڈ بن ہی نہیں سکتا، ایک تصویر اور ایک انگوٹھا اگر نادرا کے ریکارڈ میں موجود ہے تو اس پر کوئی دوسرا کارڈ جاری ہو ہی نہیں سکتا۔ بائیومیٹرک نظام نے ہماری کئی مشکلیں آسان کر دی ہیں اور اب ایک چِپ کی مدد سے معاشرے کو کنٹرول کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
برادرم احسن اقبال اب بہت بڑے لیڈر اور سیاستدان ہیں۔ انہیں تیس سال کا تجربہ حاصل ہے اور اس دوران وہ مارشل لا کی سختیاں بھی برداشت کر چکے ہیں۔ میںنے انہیں 1988ءمیں پہلی بارمیاںنوازشریف کی انتخابی مہم کی گتھیاں سلجھاتے دیکھا، ان کادفتر سات کلب روڈ کے سامنے تھا۔ وہ ہر آنے جانے والے سے مسکرا کر بات کرر ہے تھے، میرا تعلق ان کی والدہ مرحومہ سے بھی ہے اور یہ تعلق اپنی بیگم کے ذریعے استوار ہوا۔ احسن اقبال اپنے نام کی طرح احسن صفات کے مالک ہیں اور اب نواز شریف کا ساتھ احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں، اس سے بڑھ کر جمہوریت کی آبیاری میں مصروف ہیں اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشان ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کی ا س وارننگ پر دھیان دے لے کہ الیکشن کے بارے میں بے یقینی پھیلانے کی مہم کو گھاس نہ ڈالے اور جولائی اٹھارہ کے لئے بھرپور الیکشن مہم چلائے، اپنی پارٹی کا منشور تیار کرے اور لوگوں سے ایسے وعدے کرے جو پورے بھی کئے جا سکیں۔ آسمانوں سے تارے توڑنے کے دعوے اور وعدے نہ کئے جائیں۔ بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا، یہ پورا کرنا کسی کے بس میںنہ تھا۔ اب کوئی بھٹو بننے کی کوشش نہ کرے اور خوش نما نعرے نہ لگائے، زمینی حقائق کو مد نظر رکھے ا ور پاکستان کی جتنی چادر ہے، ویسے ہی پاﺅں پسارے جائیں،۔اس سے نہ سیاسی جماعتوں کو خفت ہو گی اور نہ ووٹروں کو ناامیدی اور یاس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا وجود ایک جمہوری سیاسی جدو جہد کے ذریعے ممکن ہوا، اس کی بقا اور نشوو نما بھی اسی نظام کے ذریعے ممکن ہے۔ احسن اقبال اپنا فرض نہیں بھولے، ہم میں سے ہر ایک کواپنے کردار کا پہرہ دینا ہو گا۔
٭٭٭٭٭