خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے مقدمات نہیں سُنے جارہے ہیں :نواز شریف

اسلام آباد (نامہ نگار+ نیوز ایجنسیاں) سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ تحریک انصاف بنی ہی عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لئے ہے، ہمارے کیس میں کچھ نہیں، پھر بھی کچھ نکالا جا رہا ہے، صرف میرے والد کے کاروبار کے پیچھے ہی پڑے ہوئے ہیں، ہمیں اللہ تعالی نے 1937ءسے نوازنا شروع کیا، اگر حساب لینا ہے تو 1937ءسے لیں، پرانے ریفرنس میں کچھ نہیں نکلا تو نئے ریفرنس کیوں دائر کئے، رینٹل پاور، این آئی سی ایل جیسے کیسز میں کرپشن ثابت ہوئی ان ریفرنسز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان خیالات کا اظہار نوازشریف نے احتساب عدالت میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ صحافی کے اس سوال پر کہ عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا گیا نوازشریف نے کہا کہ آپ بنی گالا والے کیس کا دیکھ لیں جعلی دستاویزات پیش کی گئیں۔ پھر بھی چھوڑ دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے کیس نہیں سنے جا رہے، ہمارے کیس میں کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی کچھ نکالا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی واپسی کی خبروں پر ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ نثار کے حوالے سے سوال پر نوازشریف نے کوئی جواب نہیں دیا۔ نوازشریف نے کہا کہ جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہی پورا کر لیں۔ وہ دلیپ کمار کی فلم جیسے حال ہے، اس کی بیوی کو جب پیار نہ ملا تو اس نے دلیپ کمار کے بیڈ روم کو ہی آگ لگا دی، صحافی نے سوال کیا کہ عامر لیاقت پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ آپ کیا کہیں گے۔ اس پر نوازشریف نے کہا کہ الحمد للہ وہ (ن) لیگ میں شامل نہیں ہوئے۔ ہنستے ہوئے نوازشریف نے کہاکہ تحریک انصاف بنی ہی عامر لیاقت جیسے لوگوں کے لئے ہے۔ عامر لیاقت جیسے لوگ پی ٹی آئی میں ہی سجتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت نے چند سال قبل (ن) لیگ میں شمولیت کی کوشش کی۔ جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ جسٹس دوست محمد کی ریٹائرمنٹ پر کیا کہیں گے انہوں نے فل کورٹ ریفرنس میں شرکت نہیں کی، تو میاں نواز شریف نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ اس بارے میں، جب ان سے سوال کیا گیا کہ رات ایک خبر گردش میں تھی کہ وزیر اعلیٰ کی ملاقات ہوئی ہے آرمی چیف سے، تو سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جی مجھے نہیں معلوم اس بارے میں، چوہدری تنویر نے لقمہ دیا کہ اس کی تردید آ گئی ہے، آپ لوگ اخبار پڑھ لیں۔ نوازشریف کا کہنا تھا ہم کسی سے کوئی توقع نہیں رکھنا چاہتے، نئے ریفرنس میں پہلے ریفرنس کا خول چڑھا دیا گیا۔ نیا ریفرنس دائرکرنے کی کیا ضرورت تھی جب پہلے ریفرنس میں کچھ نہیں نکلا، پہلے چھ ماہ میں کون سی چیز ثابت ہوئی جو ڈیڑھ ماہ میں ثابت ہوجائےگی۔ یہ دلیپ کمارکی فلم جیسا حال ہے کہ بیوی کو جب پیار نہ ملا تو اس نے دلیپ کمار کے بیڈ روم کو ہی آگ لگا دی۔ چوہدری نثار کے شکوے اور منانے کے سوال پر نواز شریف نے خاموشی اختیار کی اور بعدازاں کہا کہ کسی سے کوئی توقع نہیں رکھنا چاہتے، جب توقع ہی اٹھ گئی غالب، کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی“۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ پہلے چھ ماہ میں کیا ثابت ہوا جو اب نئی چیزیں مل گئی ہیں، جتنی دستاویزات پیش کی ہیں وہ ہم نے خود فراہم کیں۔ کیس میں کوئی جان نہیں ہے۔ عمران خان نے جعلی دستاویزات جمع کروائیں تو بولتے ہی نہیں، یہ بھی ٹھیک ہیں۔ پہلے کہا گیا فلیٹ میرے ہیں پھر وہی ملکیت میاں صاحب پر ڈال دی۔ میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اثاثہ جات کیسے بنائے۔ آپ نے کرپشن کا الزام لگایا ہے کرپشن ثابت کریں۔ عمران خان نے تسلیم کیا کہ وہ آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ نہیں کہ مجھ پر کون سا الزام ہے۔ اثاثے بنانا بھی کوئی بری بات ہے۔
نوازشریف

اسلام آباد (نا مہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کیخلاف نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دائر متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں اپنا بیان قلمبند کروایا۔ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت آج ہوگی۔ واجد ضیاءآج بھی اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔ سماعت کے دوران واجد ضیا نے نوازشریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کیا۔ واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ جفزا اتھارٹی کے لیٹر میں نواز شریف کی ملازمت کی تصدیق کی گئی، نواز شریف کیپیٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ کے چیئرمین تھے۔ واجد ضیا نے کیلیبری فونٹ سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی جسے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلیگ شپ ریفرنس سے متعلق آف شور کمپنیوں کی دستاویزات اور امارات سفارتخانے کا جواب بھی عدالت میں پیش کر دیا گیاہے۔ احتساب عدالت نمبر 1 کے جج محمد بشیر نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف، انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے۔ احتساب عدالت میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے تحریری طور پر درخواست دی جبکہ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے زبانی درخواست پر دلائل دئیے۔ نوازشریف کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ تین حصوں پر مشتمل ہے، اس کا ایک حصہ دستاویزات، دوسرا حصہ بیانات جبکہ تیسرا حصہ تجزیات پر مشتمل ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ واجد ضیا گناہ اور بے گناہی سے متعلق عدالتی دائرہ اختیار میں نہیں آسکتے، اس کا تعین عدالت نے کرنا ہے، واجد ضیا نے نہیں۔ نوازشریف کی درخواست میں کہا گیا کہ تفتیشی افسر رائے دینے کا حق نہیں رکھتا جبکہ ماہرین ہی اس طرح کی رائے دے سکتے ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون شہادت واجد ضیا کو اپنی کی گئی تحقیق سے متعلق وضاحت سے نہیں روکتا۔اس موقع پر وکیل امجد پرویز نے دلائل دئیے کہ ایک بار طے کرلیں کہ واجد ضیا نے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں، جب وہ رائے یا تجزیہ دیتے ہیں تو ہم اعتراض اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ واجد ضیا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 1980ءکا طارق شفیع اور عبداللہ علی کے درمیان معاہدہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کے حوالے سے اہم ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان کے ذمہ سپریم کورٹ نے یہ کام لگایا تھا کہ وہ اس معاہدے سے متعلق تحقیقات کریں۔ اس دوران جج محمد بشیر نے کہا کہ پروسیکیوشن گواہ کو لیڈ کرے تاکہ عدالتی کارروائی میں تعطل نہ آئے۔ واجد ضیا نے نوازشریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کیا۔ واجد ضیا نے عدالت کو بتایا کہ جفزا اتھارٹی کے لیٹر میں نوازشریف کی ملازمت کی تصدیق کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ نواز شریف 10ہزار درہم ماہانہ تنخواہ وصول کررہے تھے، جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کیا کہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ عوامی دستاویزات ہے جبکہ اس خط کی کہیں سے بھی تصدیق نہیں کرائی گئی اور اس سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خط کسے لکھا گیا۔ دوران سماعت مریم نواز کے وکیل کے اعتراض پر عدالت نے دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔سماعت کے دوران نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بھی بنا گیا، اس کے ساتھ ساتھ واجد ضیا نے عدالت میں شیزی نقوی کے بیان حلفی اور کوئسٹ سلیسٹر اختر ریاض راجا کو لکھے گئے خط کی نقول بھی پیش کیں۔عدالت میں واجد ضیا نے نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ، فنڈز فلو چارٹ اور باہمی قانونی مشاورت کے تحت متحدہ عرب امارات (یو اے ای)سے آنے والا جوابی خط بھی عدالت میں پیش کیا۔ واجد ضیا کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ باہمی قانونی مشاورت کے تحت جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے خط کی کاپی جلد 10میں ہے اور یہ جلد سربمہر ہے۔دوران سماعت واجد ضیا کے ریکارڈ پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض کیا کہ یہ وہ خط تو دکھا نہیں رہے جس کے جواب میں یو اے ای حکام کا جواب آیا۔وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں فراہم کی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی اس خط کی نقل شامل نہیں، ہمیں نامکمل کاپی فراہم کی گئی، جس کے انڈیکس میں بھی خط کا حوالہ نہیں ہے۔ نوازشریف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 3 کے اضافی 8 صفحات غائب ہیں جس پر نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے کہا کہ اضافی 8 صفحات فراہم کردیئے جائیں گے۔ مریم نواز کے وکیل کے اعتراض کے ساتھ اقامہ سے متعلق دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔ سماعت کے دور ان سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے احتساب عدالت میں متفرق درخواست بھی دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پہلے طے کرلیا جائے کہ واجد ضیاءکون سی چیزیں ریکارڈ پر لاسکتے ہیں۔ سماعت کے بعد عدالت نے نوازشریف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج (21 مارچ) کو سنائے جانے کا امکان ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...