پیر پگارا علی مردان شاہ مرحوم نے دو وجوہ سے شہرت پائی۔ ایک تو وہ برصغیر کے واحد پیر تھے جن کے مریدین حُر جنگجو تھے اور وہ ان پر جان نچھاور کرتے تھے۔ جن کا نعرہ ہی ’’بھیج پگاڑا‘‘ ہو، ان کی عقیدت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دوسرا علم نجوم سے خاص شغف تھا۔ ستاروں کی گردش سے آنیوالے کل کا حال بتاتے تھے۔ جب بھی کاروانِِ بہار خیمہ زن ہوتا تو وہ ایک بیان داغ دیتے ’’مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا‘‘ برملا اپنے آپ کو جی ایچ کیو کا آدمی کہتے۔ میاں نواز شریف سے بوجوہ خاصی پرخاش تھی۔ جب سے ضیاء الحق نے انکے مرید خاص محمد خان جونیجو کو بہ یک بینی و دوگوش ایوانِ اقتدار سے باہر نکالا تھا اور میاں صاحب نے روایتی مشرقی محبوب کی طرح آنکھیں پھیر لی تھیں اور اس کیخلاف ایک کنونشن بلایا تو پیر صاحب کے دل میں گرہیں سی پڑ گئی تھیں۔ انکے متعلق جب بھی بات کرتے تو وہ دور تلک جاتی۔ بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں صاحب نے سب ڈپٹی کمشنروں کو ہدایت کی کہ کنونشن میں ممبران اسمبلی کی حاضری کو یقینی بنایا جائے۔ میں اس وقت ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان تھا۔ جب میں نے پاکستان کی ’’اندرا گاندھی‘‘ تک پیغام پہنچایا تو وہ تنک کر بولی ’’نواز شریف جا رہا ہے!‘‘ میاں صاحب تو نہ گئے لیکن وہ کچے دھاگے سے بندھی ہوئی ان کے کیمپ تک پہنچ گئی۔ جس قدر مراعات اس کنبے نے حاصل کی ہیں اگر انکی تفصیل لکھی جائے تو ایک اور قضیہ کھڑا ہو جائیگا!
پیر صاحب کی رحلت کے بعد پیش گوئیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ یہ کام پنڈی کے شیخو بابا نے سنبھال لیا ہے۔ جو باتیں پیر صاحب نستعلیق لہجے میں کرتے تھے انکی ادائیگی کا پھاوڑا یہ براہ راست دے مارتے ہیں۔ تیز رفتار، برہنہ گفتار غلام محمد گورنر جنرل اگر زندہ ہوتا تو ضرور انکے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا۔ کسی زمانے میں شیخ صاحب میاں صاحب کے دستِ راست تھے، اب دست درازی پر اتر آئے ہیں۔ اس میں کچھ قصور میاں صاحب کا بھی ہے۔ ایسے ’’گوہر نایاب‘‘ کو گنوایا بھی تو کس کیلئے، ایک یبوست زدہ ایفی ڈرینین جس کی باتیں سننا تو کجا دیکھنے سے ہی طبیعت میں تنغض پیدا ہوتا ہے۔ملک کا کوئی بھی ایسا ٹی وی چینل نہیں ہے جو شیخ صاحب کو اپنے پروگراموں میں نہ بلاتا ہو۔ غم و آلام غربت و افلاس کی ماری ہوئی قوم کو کچھ نہ کچھ تو تفریح چاہئے۔ جو کام عام مشہور کامیڈین مل کر بھی ایک فلم میں نہیں کر پاتے، وہ شیخ صاحب ایک گھنٹے کے پروگرام میں کر جاتے ہیں۔ لچھے دار گفتگو جس میں غلط سلط انگریزی کا تڑکا لگا ہوتا ہے۔
ویسے تو شیخ رشید صاحب ہر تین ماہ بعد آنیوالے تین ماہ کی پیش گوئی کر دیتے ہیں لیکن اس مرتبہ لگتا ہے کہ وہ سرخرو ہونیوالے ہیں۔ یہ مارچ میاں صاحب پر بھاری پڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ فوجداری مقدمات بڑی تیزی سے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حواری، درباری، دربان اور شعرا پر بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ مخالفین کہتے ہیں وہ دن دور نہیں جب سب نہال، طلال اور دانیال پرملال ہونگے! شاہ سے زیادہ وفادار، اگر انہیں تاریخ کا ذرا سا بھی ادراک ہوتا تو ایک حد سے آگے نہ بڑھتے۔ کیا انہیں طارق عزیز، میاں منیر، سردار کھوسہ، غوث علی شاہ اور جاوید ہاشمی کا انجام یاد نہیں؟ کسی کے دکھ پر خوش ہونا کم ظرفی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ انہیں معافی مل جائے! انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہم سب گنہگار ہیں۔ بالفرض ایسا نہ ہوا تو کچھ دیر بعد انہیں ادراک ہو گا … ع
مرے تھے جن کیلئے وہ رہے وضو کرتے!
سینٹ الیکشن اہل بصیرت و بصارت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ جتنے ووٹ (ن) لیگ کے پاس تھے اتنے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ملا کر بھی نہیں بنتے تھے۔ باایں ہمہ میاں صاحب کو ادراک ہو گیا تھا کہ پانی کہیں نہ کہیں تو مرتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے ایک اچھی چال چلی۔ زرداری کو اس کی اپنی وکٹ پر کھلانا چاہا۔ رضا ربانی پیپلز پارٹی کا فعال رکن تھا، اس نے بطور چیئرمین سینٹ اداروں پر کھل کر تنقید کی۔ پارٹی پالیسیوں کیخلاف چلا۔ فرضی ظلم اور زیادتیوں کیخلاف اس قدر آنسو بہائے کہ اسکے سیلِ گریہ میں گردوں کفِ سیلاب تھا۔ زرداری بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا ہوا۔ اسے علم تھا کہ یہ حب علی نہیں بغض معاویہ ہے۔ مقصد پارٹی میں پھوٹ ڈلوانا تھا۔ اگر (ن) لیگ کے پاس واضح اکثریت ہوتی تو وہ کبھی بھی چیئرمین کو زرداری کی جھولی میں نہ ڈالتی۔ اس صورت میں کسی اور ہی کے گلے میں ہار ڈالے جاتے۔
ہم نے ہمیشہ عمران کو سادہ لوح خان کہا ہے۔ اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ پتہ نہیں اس قدر ماسٹر سٹروک اس نے کیسے کھیلا ہے یا کھلایا گیا ہے۔ ہم نے بار بار لکھا ہے کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ معروضی حالات میں (Rigid) سیاست کرنے سے سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس کا تجربہ زرداری صاحب کو ہو چکا ہے۔ ق لیگ کو قاتل لیگ کہنے سے وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جب ادراک ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ ق لیگ کے ممبر فارورڈ بلاک کی صورت میں میاں شہباز شریف کی جھولی میں آن گرے تھے۔ اب بھی معلق پارلیمنٹ کا امکان ہے۔ تین بڑی پارٹیاں ن لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ابھریں گی۔ حکومت دو پارٹیوں کے الحاق سے بنے گی۔ اس صورت میں عمران خان پر منحصر ہو گا کہ وہ دونوں، صوبائی اور مرکزی حکومت چاندی کی طشتری میں رکھ کر ن لیگ کو پیش کرتے ہیں یا افہام تفہیم سے پیپلز پارٹی کیساتھ الحاق کرکے اقتدار بانٹتے ہیں۔ جس معاشرے میں جھوٹ بولنا ایک عادت سی بن گئی ہو، کرپشن خون کی طرح رگ و پے میں جاری و ساری ہو، وہاں سماجی برائیوں کو ختم کرنے کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے سو میل کا سفر ایک جست میں نہیں بلکہ پہلا قدم اٹھانے سے شروع ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ منازل طے ہوتی جاتی ہیں۔ کسی انگریز مفکر نے درست کہا ہے۔
We have to see things as they are and not as they ought to be. we must strive for not what is ideally best but what is best practicable very often best turns out to be the enemy of the good.
سادے لفظوں کا ترجمہ یہ ہو گا۔ (آدھی چھوڑ ساری کو جاوے۔ آدھی ملے نہ پوری پاوے)
اس میں دو آرا نہیں کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں میاں صاحب کی سیاست کو زک پہنچی ہے، الیکشن کے بعد آئین میں ترمیم کا خیال خواب بن کررہ گیا ہے۔ دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت؟ اکیسویں صدی میں معجزے نہیں ہوتے۔ پھر یہ کہہ کر کہ غیبی ہاتھ سب کچھ کروا رہا ہے، انہوں نے اپنی پارٹی کے ممبران کو ڈرا دیا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو راتوں رات دوڑ کر میاں منظور وٹو کے ساتھ جا ملے تھے۔ اس وقت بھی انہیں غیبی طاقت کا ڈر تھا۔ میاں صاحب کو چاہئے کہ حوصلہ کر کے انہیں بے نقاب کر دیں۔ منصور، منڈیلا اور خمینی ویسے تو نہیں بنتے، حوادث، مشکلات اور تکلیفوں کے آتش زار سے گزرنا پڑتا ہے۔
البتہ اس تمام Episode میں چھوٹے صاحب کی حکمتِ عملی محلِ نظر ہے۔ اس قدر خامشی، جو کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ہے وہ یقیناً اس وقت اداروں کی Good Books میں ہیں جو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ ہر لفظ سوچ سمجھ کر بولتے ہیں کچھ یوں گمان ہوتا ہے جیسے وہ اس دنیا میں ہیں ہی نہیں، کسی گمنام جزیرے میں ہجرت کر گئے ہیں۔ یہ سب باتیں آنیوالے کل کیلئے ضروری ہیں۔ مبصرین کیمطابق ان کا وزارت عظمیٰ تک پہنچنا مشکل سہی، ناممکن نہیں ہے! ن لیگ نامساعد حالات کے باوصف اب بھی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ پنجاب جسکے ممبران کی تعداد نصف سے زیادہ ہے۔ البتہ انہیں ایک بات کا خدشہ ضرور لاحق ہو سکتا ہے جس کا انکشاف انہوں نے جدہ میں میں کیا تھا۔ پرویز مشرف نے انہیں پیغام بھیجا۔ ’’تم ایک قابل جوان اور محنتی انسان ہو۔ وزیراعظم بننے کے لائق! تمہارا مسئلہ صرف ایک ہے! تم نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہو!