دہشت گردی کی تعریف کیلئے لارجر بنچ‘جھوٹے گواہ کے خلاف کارروائی کی جائے:سپریم کورٹ

Mar 21, 2019

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ +آئی این پی + این این آئی) دہشت گردی کی تعریف کا تعین کرنے کیلئے سپریم کورٹ کا لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے 1997ء سے اب تک یہ طے نہیں ہوا کون سا کیس دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ چیف جسٹس نے دہشت گردی کی تعریف کے لیے لارجر بنچ داماد کے ہاتھوں ساس کو زندہ جلائے جانے کے مقدمے کی سماعت کے دوران تشکیل دیا۔ وہ خود 7 رکنی لارجر بنچ کی سربراہی کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا 1997ء سے اب تک یہ طے نہیں ہوا کونسا کیس دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ لارجر بنچ دہشت گردی کی حتمی تعریف پر فیصلہ دے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج سے یہ طے ہو جائے گا کہ جھوٹے گواہ کی پوری گواہی مسترد ہو گی۔ سپریم کورٹ نے فیصل آباد میں داماد کے ہاتھوں ساس کو زندہ جلانے سے متعلق کیس میں موت کی سزا برقرار رکھی۔ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے ملزم کو پھانسی کا حکم سنایا تھا۔ سپریم کورٹ نے جھوٹی گواہی سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں عدلیہ کو جھوٹی گواہی پر کسی قسم کی لچک نہ دکھانے کا کہا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے 31 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں سپریم کورٹ نے جھوٹی گواہی پر جھوٹے گواہ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سچ انصاف کی بنیاد ہے اور انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہے، سچ پر سمجھوتہ دراصل معاشرے کے مستقبل پر سمجھوتہ ہے۔فیصلے کے مطابق ہمارے عدالتی نظام کو سچ سے انحراف کرنے کا بہت نقصان ہوا، اس سنگین غلطی کو درست کرنے کا وقت آگیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ 'جو ایک جگہ جھوٹا ہوگا وہ ہر جگہ جھوٹا ہوگا، گواہی کے کسی حصے میں جھوٹ پر ساری گواہی جھوٹی تصور ہو گی'۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ عدالتیں جھوٹے گواہ کے خلاف کسی قسم کی لچک نہ دکھائیں اور جھوٹی گواہی دینے پر کارروائی کی جائے۔سپریم کورٹ نے رجسٹرارآفس کو فیصلے کی کاپی تمام ہائیکورٹس کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ ہائیکورٹس کو فیصلے کی نقول ماتحت عدلیہ کے ججز کو بھجوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ایمان کا تقاضا ہے کہ سچی گواہی دی جانی چاہیے، سچی گواہی کی عدم موجودگی میں انصاف ممکن نہیں، جھوٹے کی حمایت سے ناانصافی اور انصاف کے خلاف جارحیت کو فروغ ملتا ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلام بھی گواہی میں حقائق چھپانے سے روکتا ہے، جھوٹی گواہی انصاف اور مساوات کو نقصان پہنچاتی ہے اور جھوٹی گواہی عوام کے تحفظ اور سکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہے۔

مزیدخبریں