’’پانچ تانگوں کی سواریاں‘‘

پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں کی قیادت نیب کے سامنے کرپشن کے مقدمات میں پیش ہورہی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کو نیب عدالت سے سزا بھی سنائی جا چکی ہے اور وہ جیل میں ہیں۔ شہبازشریف اور حمزہ شہباز نیب کی انکوائریاں بھگت رہے ہیں۔ بدھ کے روز سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے جواں سال فرزند بلاول بھٹو اسلام آباد میں نیب کے سامنے پیش ہوئے، دونوں سے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سوالات پوچھ گئے۔ باپ بیٹے سے جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں درجنوں سوالات پوچھے گئے۔ انہیں دس دن کے اندر تحریری سوالوں کا جواب بھی نیب کو دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بدھ کے روز پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ وہ آصف زرداری اور بلاول کی نیب میں پیشی کے موقع پر نیب عدالت کے باہر جمع ہوں۔ پی پی پی کے کارکن نیب عدالت کے باہر آئے بھی لیکن ان کی تعداد محدود تھی ۔ وزیراطلاعات فوادچوہدری نے طنزاً کہا ہے کہ پانچ تانگوں کی سواریوں کے برابر جیالے بھی جمع نہ ہوسکے۔ پیپلز پارٹی کے جیالے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا دلیری سے مقابلہ کرتے رہے۔ ستمبر 1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان قتل کیس میں مارشل لاء حکومت نے گرفتار کیا تو راولپنڈی کے کمیٹی چوک میں ایک اخبار کے فوٹو گرافرسمیت چھ کارکنوں نے اپنے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگائی۔ جن میں سے چند چل بسے مارشل لاء کی مزاحمت کرتے ہوئے ملک کے چاروں صوبوں سے ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے جیلوں میں ڈالے گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ جن میں سے اکثر بیرون ملک فوت ہوئے یا اب بھی بیرون ملک مقیم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں پی پی پی کے کارکنوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔ چند ایک کو پھانسی بھی دی گئی اس کے باوجود پی پی کے جیالوں نے مارشل لاء حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ یہ مزاحمت 1983ء کی بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی کے دوران سندھ سمیت دوسرے صوبوں میں عروج پر پہنچ گئی۔ 10 اپریل 1986ء کو جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد واپس لاہور آئیں تو دس لاکھ سے زیادہ پاکستانیوںنے ان کا استقبال کیا ۔ بعد میں بے نظیر نے ملک کے چاروں صوبوں میں جلسے کئے جس میں لاکھوں افراد شریک ہوتے رہے۔ جیالوں کی جدوجہد کے نتیجے میں ہی بے نظیر 1988ء میں ملک کی وزیراعظم بن گئیں۔ اس وقت صورت حال مختلف تھی۔جیالے اور پی پی پی کے حامی بھٹو کی پھانسی کا بدلہ جمہوریت اور شہری آزادیاں بحالی کرانے کے لیے جدوجہد کرکے لے رہے تھے۔
لیکن اب معاملہ دوسرا ہے۔ پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین پر بنکوں کے جعلی اکاؤنٹس کھول کر اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کرنے کا الزام ہے۔ 2008ء سے 2013ء تک آصف زرداری کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت تھی جس میں دو وزیرائے اعظم پر بدعنوانی کے الزامات لگے ایک وزیراعظم برطرف ہوئے اور دوسرے پر نیب میں مقدمات چل رہے ہیں۔اس وقت پی پی پی کے کارکنوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت پر کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے میں ان کا ساتھ دیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ درحقیقت احتساب کرنے والے ادارے پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز نیب کے سوالوں کا جواب دینے کے بعد میڈیا سے بات چت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے بڑی غلطی ہوئی کہ ہم نے اپنے دور میں نیب کے کالے قوانین کو ختم نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت بھی یہی کہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں نیب قوانین کو تبدیل نہ کرکے غلطی کی۔
دونوں جماعتوں کی لیڈر اب نیب پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ دونوں کی قیادت احتساب کے عمل سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ دونوں سابق حکمران جماعتیں کوشش کررہی ہیں کہ سیاسی دباؤ کا حربہ استعمال کرکے موجودہ احتسابی عمل سے جان چھڑائی جائے۔ لیکن رائے عامہ احتساب کے حق میں ہے۔ سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرنے اور لوٹ مار کے ہوش ربا انکشافات کے بعد اب عام پاکستانی قائل نظر آتا ہے کہ جس کسی نے بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔ غریب لوگوں کا پیسہ باہر بھیج کر قیمتی جائیدادیں بنائی ہیں۔ ان کو احتساب کے کٹہرے میں ضرور لایا جائے۔ احتساب کی گرفت میں آجانے والے لیڈروں کو محدود تعداد میں اپنے حامیوں یا ان کی حکومتوں میں سرکاری مال پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی حمایت حاصل ہے لوگوں کی بڑی اکثریت چاہتی ہے کہ ملک سے لوٹ مارختم ہو۔ لوگوں کی زندگی میں بہتری آئے۔ قرضوں میں ڈوبے ملک کو قرضوں سے نجات دلائی جائے ۔

ای پیپر دی نیشن