اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے اڈیالہ جیل میں قید معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ایک افسر مقرر کریں جو ضمانتی مچلکوں کے معاملات دیکھے، جو قیدی مچلکے جمع نہ کرا سکیں حکومت کو ان کے قیدیوں کے مچلکے خود دینا پڑیں تو دے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جیل سے متعلق انتظامیہ کی کیا پالیسی ہے؟ جس پر ڈپٹی کمشنر نے کہاکہ جو لوگ قید ہیں انہیں کرونا نہیں ہوا اور انہیں کسی سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جیلوں میں پہلے ہی قیدیوں کی تعداد زیادہ ہے اگر کسی قیدی میں کرونا ہوتا ہے تو یہ سنگین صورتحال ہوگی۔ جس قیدی کو بھی جیل میں ڈالنا ہو ان کی پہلے سکریننگ کی جائے اور جو قیدی رہائی پائے اس کی بھی سکریننگ کی جائیگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی، ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے، چین میں بھی دو جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے تھے،آوارگی کے الزام میں بھی لوگ جیل میں پہنچ جاتے ہیں۔ اتنے معمولی جرائم والے تو جیل تک نہیں پہنچنے چاہییں۔ سیکشن 401 کے تحت بیمار قیدیوں سے متعلق انتظامیہ اور حکومت بااختیار ہے،بیمار قیدیوں سے متعلق حکومت اور انتظامیہ دیکھے ان کی سزا معطل کی جائے ،پیرول پر بھی کچھ قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کیا، عدالت نے مذکورہ بالا حکم دیتے ہوئے کہاکہ یہ ایمرجنسی نوعیت کے حالات ہیں ان میں تمام اقدامات کرنا ہوں گے، ہماری قوم گھبرانے والی نہیں لیکن اقدامات تو کرنے ہی ہوں گے، جو قیدی تھانوں میں موجود ہیں ان کے مچلکے ایس ایچ او لیکر رہا کر سکتا ہے، عدالت نے یہ بھی کہاکہ ہم تھانے والے قیدیوں سے متعلق بھی تحریری حکم جاری کر دیں گے۔ ان حالات میں گرفتار صرف اسی کو کیا جائے جس سے بہت خطرہ ہو۔ اگر کرونا کو قابو نہ کیا گیا تو پچاس سال اس نقصان کا ازالہ نہیں ہو پائے گا۔ برطانیہ اور اٹلی پوری دنیا کو کہہ رہا ہے کہ ہماری غلطیاں نہ دہرائیں۔ عدالت نے مذکورہ حکم دیتے ہوئے معاملے نمٹادیا ہے۔