دبئی سے آنے والی پرواز دو گھنٹے لیٹ تھی۔اس تاخیر کا گھرپر علم ہو گیا تھا لہٰذا ہم مہمان کو لینے بھی جہاز کی لینڈنگ سے چند منٹ قبل پہنچے ۔ آدھے گھنٹے سے سوا ڈیڑھ گھنٹے کا وقت ایسی پروازوں کے مسافروں کو باہر آنے میں لگ جاتاہے۔ تین تین چار چار انٹرنیشنل فلائٹس آگے پیچھے اُتری ہوتی ہیں۔ مگر اس روز ایک ہی فلائٹ تھی ، کئی کینسل ہو چکی تھیں ، جن کی تفصیل ارائیول لائونج کے بڑے گیٹ کے اوپر جہازی سائز کی سکرین بتا رہی تھی۔ لائونج میں ہُو کا عالم تو نہیں تھا البتہ بہت کم لوگ تھے، ان میں سے کچھ دبئی سے آنیوالی پرواز کے مسافروں کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک نوجوان فون پر کسی کو بتا رہا تھا ۔"کرونا کے باعث لاہور ائیر پورٹ سنسان پڑا ہے ۔پروازیں منسوخ ہورہی ہیں۔"
یہ 13 مارچ دن گیارہ بجے کا واقعہ ہے۔ واقعی لائونج میں پہلے کی طرح رش نہیں تھا۔ میں وہاں سے اُٹھا، موبائل کا کیمرہ آن کیا جہازی سائز کی سکرین کی ویڈیو بنائی اس کے بعد تھوڑا آگے جا کے جنگلے کے گرد لوگوں اور پھر سائیڈ پر بیٹھے لوگوں کا شارٹ لیا۔ اس کے بعد میں لائونج سے باہر آ کر ائیر پورٹ کے فرنٹ اور پارکنگ کی ویڈیو بنانے کے لئے چل پڑا۔ دو چار قدم ہی اٹھائے ہونگے ،دفعتاً سکیورٹی افسر نے روکتے ہوئے کہا ’’ ابھی کیا کر رہے تھے۔‘‘ ویڈیو بنا رہا تھا۔ کس لیے؟ یوٹیوب پر لگانے کے لیے، کرونا کے باعث ائیر پورٹ سنسان ہے۔ افسر نے موبائل مجھ سے لیتے ہوئے کہا ۔" ویڈیو بنانا غیر قانونی ہے"۔ ـ" میں نے تو کئی بارپہلے بھی بنائی ہے، مجھے نہیں پتہ اب غیر قانونی ہے"۔ اس نے وہ ویڈیو میں نے چلا کر دکھا دی جو 20 سیکنڈکی تھی۔ انہوں نے دیکھنے کے بعد پلسیانہ لہجے میں کہا ،اگر یہ ان لوگوں کودکھا دوں جن کی خواتین کی بھی نظر آرہی ہیںتو آپ کو پتہ ہے کیا ہو سکتا ہے۔ایسا کرنا ان کی طرف سے شاید کارِخیر ہوتا۔ میرا جواب تھا اگر فوکس کر کے بنائی ہے تو غیر اخلاقی اور جرم ہے مگر یہ ایک گلانس میں بنی ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ میڈیا سے ہیں؟ ہاں ، کہنے پر کارڈ طلب کیا۔وہ میں نے دکھا دئیے وہ مجھے اپنے آفس فرسٹ فلور پر لے گئے۔ وہاں شاید ان سے بڑابڑی کرسی پر بیٹھا تھا۔ کارڈ اور موبائل ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ' یہ ارائیول لائونج میں ویڈیو بنا رہا تھا'۔میں اس دوران صوفے پر دو لوگوں کے درمیان جگہ دیکھ کر بیٹھ چکا تھااور کسی نے نہیں اُٹھایا۔ ساتھ ہی سکیورٹی کا ایک اور افسر بیٹھا تھا اس نے سامنے بڑی کرسی پر بیٹھے افسر کو کہا، ویڈیو ڈیلیٹ کر دیں۔ مجھے وہاں لانے والا افسر شاید کسی نئے ’’جاسوس‘‘ کی تلاش میںنکل گیا تھا۔ وہاں مجھے ویڈیو بنانے کا اقرار کرتے ہوئے آئندہ تائب ہونے کا لکھ کر دینے کو کہا گیا۔ میں نے کہا جو لکھنا ہے آپ لکھ دیں میں سائن کر دونگا۔اس کے بعد کارڈ ’’اقرار جرم اورحلف نامے‘‘ کی فوٹو کاپیاں کرائی گئیں۔ اس دوران تحریر کرنے والا این سی او اپنی سیٹ سے اُٹھ کر انچارج کی سیٹ پر بیٹھ گیا وہ فون پر کسی کورپورٹ دے رہا تھا۔ ’’ایک لڑکا‘‘ ارائیول لائونج میں ویڈیو بناتا پکڑاہے۔وڈیو ڈیلیٹ کر دی…"لڑکا" کہنے پر میں مسکرا دیا۔ مجھے مسکراتے ہوئے انہوں نے دیکھا نہیں یا پھر یہ ویڈیو بنانے کی طرح جُرم نہیں تھا۔اسی دوران ساتھ بیٹھے افسر کے لیے چائے آئی۔ آفر کی پر میں نے شکریہ کہہ دیا۔ جہاں مجھے 'ابھی نندن والی چائے' یاد آگئی ۔اسی جگہ میں دو بار مہمان کے طور پر چائے پی چکاہوں۔
ان صاحب نے کروناسے خوفزدہ نہ ہونے کی بات کی اور کہا ائیرپورٹ پر کہاں ویرانی ہے،پروازیں آجا رہی ہیں۔مگر چند دن میں صورتحال بہت بدل گئی ہے۔ہرطرف خاموشی ، سکوت اور خوف کی کیفیت ہے لاک ڈاؤن ہوا تو نہیں مگر بہت کچھ بند ہوچکا ہے۔
کرونا کا خوف ہی بہت ہے۔کسی مقام پر سکیورٹی والے نے جھومتے جھامتے شخص سے پوچھا اوئے تو نے شراب پی ہے۔ اس نے کہا سُونگھ کے دیکھ لو تو افسر دو قدم پیچھے ہو گیا۔ اب کروناکے باعث پورے ملک میں چھوٹے بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ جلد یا بدیر ان شاء اللہ اس وباء پر قابو پا لیا جائے گا۔ یہ ایک وباء ضرور ہے،اس کے مضمرات ہیں مگر اس سے کئی نئے رجحانات، روایات اور مثبت امکانات جنم لے رہے ہیں۔
سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں۔ کرونا سے 98 فیصد مریض بچ جاتے ہیں۔مگر اٹلی اموات کی شرح 27 فیصدہے ۔ اٹلی میں حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے۔ بیماریاں بہت کم ، اوسط عمر بھی کافی زیادہ ہے۔ کرونا سے زیادہ تر وہی لوگ جانبر نہیں ہو سکتے جن کی کسی بیماری یا زیادہ عمر ہونے کے باعث قوت مدافعت کم ترین سطح پر آچکی ہو۔ اٹلی میں مرنے والوں کی عمریں اسی سے 95سال کے درمیان تھیں۔ چونکہ اٹلی میں لوگوں کی عمومی صحت قابل رشک اور وہ بیماریوں سے کافی حد تک محفوظ تھے اس لئے وہاں زیادہ ہسپتال بھی نہیں۔ اب طبی سہولیات کی بڑے پیمانے پر ضرورت محسوس ہوئی تویہ المیہ رونما ہو گیا۔ دنیا کیلئے سبق ہے کہ امکانات کو کسی صورت نظرانداز نہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ کہتا ہے،مسئلہ کشمیر حل ہو جائے اتنی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی۔مگرکسی بھی بڑے قضیے کے پیش نظرہمیں اپنی قوت کو آج کی سطح سے بھی زیادہ مجتمع اور تیار رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم چین بھارت اور ایران پونے تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان موجودہیں۔دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بننے میں دیر نہیں لگتی۔
عالمی سطح پر پٹرول سستا ہوا ، پاکستان میں سونا ایک لاکھ روپے سے 70 ہزار تولہ پر آگیا۔ مستقبل میں کیا ہم سونے کی آج کی ضرورت کو برقرار نہیں رکھ سکتے؟
کچھ اہل ایمان کی طرف سے کہا جا رہا ہے، کرونا کے حوالے سے خوف و ہراس پھیلانے کا مقصد اسلامی اجتماعیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ سردست تو اجتماعیت بکھر کر رہ گئی ہے۔ مساجد میں جانے سے گریز کی بات ہو رہی ہے، طواف کعبہ تعطل میں رہا ہے، کئی ممالک میں مساجد بند کر دی گئیں۔ ہمارے ہاں مزارات بند ہوچکے ہیں۔ ایسی مصیبت میں تو لوگ مساجد، مزارت اور خانقاہوں کا رُخ کیا کرتے تھے۔ اس وباء کے خاتمے کے بعد کہاں تک اسلامی اجتماعیت بحال ہوگی؟ خدانخواستہ یہ مستقل رجحان نہ بن پائے۔کرونا سے بچاؤ کیلئے صفائی ستھرائی پر زور دیا جاتا ہے۔ مساجد سے زیادہ صاف ستھرے اور پاکیزہ مقامات ہو ہی نہیں سکتے،مرکز اور صوبوں میں کرونا کے حوالے سے کوآرڈی نیشن پایا جانا اطمینان بخش ہے ۔ ڈینگی کا مرض پھیل رہا تھا تو شہباز شریف نے کہا تھا میں قسم کھا کر کہتا ہوں پنجاب میں ڈینگی کے پھیلائو کے ذمہ دار صدر زرداری ہیں۔اس کی وضاحت یہ سامنے آئی کہ سری لنکا سے ڈینگی کے تدارک کے لئے ٹیم کو پنجاب نہیں آنے دیا جا رہا تھا۔15 جنوری کو کرونا کی سکیننگ شروع ہوئی، 26 فروری کو پہلا مریض سامنے آیا۔ کاش اُسی وقت اس وباء کی شدت کا ادراک کر لیا جاتا تو 23 مارچ کی ریہرسل کے دوران قیمتی F-16اور اس سے بھی زیادہ قیمتی پائلٹ ونگ کمانڈر نعمان بچ جاتے۔
اٹلی میں مکمل طور پر لاک ڈائون ہے، صرف ہسپتال کھلے ہیں۔ کتیف سعودی عرب میں کرفیو لگا دیا گیا،پورے بھارت میں اتوار۲۲ مارچ کو لگے گا۔اس اقدام کے پسِ پردہ مودی خباثت کارفرما ہے۔لاک ڈاؤن تو کئی ممالک میں کیا چکا ہے۔کرفیو میں سب کچھ جبری بند، لاک ڈاؤن میں نقل و حرکت محدود ہوتی ہے۔کئی ممالک میںبڑے سٹوروں پر اشیائے خورونوش لوگوں کے ذخیرہ کرنے کے باعث ختم ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں خوراک کے بحران کے بجائے وافر ہونے کا امکان ہے۔ گوشت، پھل، سبزیاں ایکسپورٹ نہ ہونے پر سستی ہو رہی ہیں۔ان کوزیادہ دیر سٹور بھی نہیں کیا جاسکتا۔بہت سے نجی اداروں اور کاروباروں کے بند ہونے سے بیروزگاری کا طوفان اٹھ سکتا ہے۔ اس جبر کا صبر کے ساتھ سامنا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس منظرنامے میں ہمیں خودانحصاری کا راستہ بھی نظر آرہا ہے۔ اپنی ضرورت کا اناج پیدا کریں، ریاستی امور چلانے کیلئے ایکسپورٹ ناگزیر ہے ۔ پاکستان کے لوٹے گئے ،وسائل واپس آجائیں تو کئی سال کی ایکسپورٹ کی کسر نکال سکتے ہیں، تمام قرض بھی اتر جائیں گے۔اب مارکیٹیں،ہوٹل کاروبار رات دس بجے بند کرنے کے حکم پر برضاو رغبت عمل جاری ہے۔اس رجحان کو بڑھاوا دے کر"دن کام رات آرام" کے کلچر کی روایت ڈالی جاسکتی ہے۔
٭…٭…٭