23 مارچ کی قرارداد : آج کا پاکستان

قرارداد لاہور جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا، 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے مینار پاکستان ( یاد گار پاکستان) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ کھلے اجلاس میں منظور کی گئی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ ریاست قائم کی جائے۔ اس اجلاس سے قائداعظم نے تاریخ ساز خطاب کیا جو پاکستانیوں کے لیے آج بھی توجہ طلب ہے۔ قائداعظم نے عوام کے بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس پندرہ ماہ کے بعد ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 1938ء پٹنہ میں سالانہ اجلاس ہوا تھا۔جس کے بعد سے کئی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم سازی تمام صوبوں میں مکمل کی جا چکی ہے۔ گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران جتنے ضمنی انتخابات ہوئے ہیں وہ سب آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدواروں نے جیتے ہیں۔ جس سے مسلم لیگ کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کی تنظیم سازی بھی تمام صوبوں اور ضلعوں میں مکمل کی جاچکی ہے۔ خواتین کی رکنیت سازی بھی ہورہی ہے۔ قائداعظم نے خواتین کی کارکردگی پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ زندگی اور موت کی اس جنگ میں خواتین کا کردار کلیدی نوعیت کا حامل ہے۔ خواتین کا سیاسی شعور بیدار ہوجائے تو مسلم لیگ کا مقدمہ مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ جس قدر منظم متحد اور باشعور ہوگی اسی قدر اس کے لیے اپنا قومی نصب العین حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ 1935ء کے ایکٹ کے تحت سیاسی اور جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرے گی 1937ء کے انتخابات کے بعد کانگریس نے مختلف صوبوں میں حکومتیں بنا کر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی شرمناک اور افسوسناک سلوک کیا ہے۔ قائداعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ عالمی جنگ سے پہلے برطانیہ صرف گاندھی کو اہمیت دیتا تھا مگر اب اسے قائداعظم بھی یاد آنے لگے ہیں۔ برطانیہ میں سیاسی اور جمہوری نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے، جس کی وجہ سے برطانیہ نے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے کہ یہی نظام ہندوستان میں بھی کامیابی سے چلایا جا سکے گا۔ برطانوی اور ہندوستانی سماج میں بڑا فرق ہے۔ کانگریس کے لیڈر گاندھی یہ کہتے ہیں کہ مسٹرجناح میرے بھائی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ میرے بھائی گاندھی کی جیب میں تین ووٹ ہیں جب کہ میری جیب میں صرف ایک ووٹ ہے لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی آئینی فارمولا مسلمانوں کا مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ قائداعظم نے دو قومی نظریہ کے سلسلے میں اپنا مقدمہ دوٹوک اور واضح انداز میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندو اور مسلمان گزشتہ ایک ہزار سال اکٹھے رہنے کے باوجود ایک قوم نہیں بن سکے۔ مسلمان اپنے مذہب ثقافت تاریخ آرٹ کلچر ہیروز زبان رہن سہن کے رسم ورواج ہر حوالے سے ایک قوم ہیں۔ ہندوستان میں اگر مسلم لیگ کی مرضی کے بغیر کوئی بھی آئینی فارمولا مسلط کیا گیا تو وہ ہندوؤں اور انگریزوں دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ دو بڑی قوموں ہندو اور مسلمانوں کو آزاد اور خود مختار ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے ہم اس مسئلے کا پرامن اور منصفانہ حل چاہتے ہیں اور اپنے نصب العین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ میں ہندوستان کے تمام مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ وہ اسلام کے خادموں کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور اپنے آپ کو سیاسی معاشی سماجی حوالے سے منظم اور متحد کریں اور ایسی قوت بن جائیں جسے ہر ایک کو تسلیم کرنا پڑے۔
قائداعظم نے اپنے خطاب میں میں الگ ریاست کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنی خداداد صلاحیتوں کے مطابق سماجی سیاسی معاشی روحانی طور پر ترقی کر سکیں اور ایسا نظام وضع کر سکیں جو اسلام کے سنہری اصولوں اور عوام کے مزاج کے مطابق ہو۔ قائداعظم جب پُرجوش خطاب کر رہے تھے تو عوام دل کھول کر تالیاں بجا رہے تھے۔ ایک صحافی نے ایک چھابڑی فروش سے پوچھا کہ تم انگریزی نہیں جانتے پھر بھی تالیاں بجا رہے ہو تو اس نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میرا قائد جو کچھ کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔ اس موقع پر قائد اعظم نے فرمایا کہ اگر علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ ہم نے وہی کچھ کیا ہے جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا۔ قائداعظم کا روح پرور اور ایمان افروز خطاب آج بھی ہمارے لئے سبق آموز ہے۔ اگر ہم قرارداد پاکستان اور قائداعظم کی خطاب پر آج بھی اس کی روح کے مطابق عمل کرسکیں تو ہم اپنی ہر قسم کی مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان 23 مارچ کی قراردار اور تحریک پاکستان کی پٹری سے ہی اُتر چکا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کے ریاستی ادارے زوال پذیر ہیں۔ پاکستان کے قرضے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، غربت اور جہالت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ آج 22 کروڑ پاکستانی اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ قائداعظم نے جس سیاسی جمہوری اور معاشی نظام کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی اور یہ سیاسی فتویٰ جاری کیا تھا کہ برطانوی نظام میں مسلمانوں کی فلاح نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اپنے مذہب تاریخ ثقافت اور عوام کے مزاج کے مطابق اپنا نظام وضع کرنا ہے جو حکمرانی اور غلامی کے لئے نہیں بلکہ عوامی خدمت کے لئے ہو افسوس ہم نے انگریزوں کے نظام کو 72 سال کے بعد بھی اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔
پاکستان کے تمام سول اور فوجداری قوانین آرمی ایکٹ پولیس ایکٹ عدالتی نظام جمہوری اور معاشی نظام سب کے سب انگریزوں نے بنائے تھے جن کا مقصد ہندوستان کے عوام کو غلام اور محکوم رکھنا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان کا آئین 1973ء ایک متفقہ آئین ہے جسے پاکستان کے منتخب نمائندوں نے تیار کیا تھا مگر ریاست کے باقی تمام قوانین انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں جو آئین کی روح کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی حکمران اشرافیہ بڑے تاجروں اور جاگیرداروں نے امریکہ اور برطانیہ کی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرکے پاکستان کی ریاست کو ڈی ٹریک کر دیا۔ جس کا مقصد سامراجی قوتوں اور مقامی اشرافیہ کا پاکستان کی ریاست پر بالادستی قائم رکھنا تھا۔ آج کا پاکستان جغرافیائی لحاظ سے تو ایک آزاد ریاست ہے جبکہ فکری اور نظریاتی حوالے سے یہ آج بھی ایک غلام اور محکوم ریاست ہے صرف چہرے بدلے ہیں جب کہ ریاستی نظام اسی طرح جاری و ساری ہے جسے تبدیل کرنے کا واحد آپشن یہ بچا ہے کہ پاکستان کے عوام متحد و منظم اور باشعور ہو کر قائداعظم اور علامہ اقبال کے تصورات اور نظریات کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کے لیے طبقاتی جدوجہد کریں اور عوامی انقلاب برپا کرنے کے بعد ایک نیا سماجی معاہدہ کریں جو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور تصورات کے عین مطابق ہو۔ نوائے وقت پاکستان کا واحد اخبار ہے جس نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز قرارداد پاکستان کے ساتھ کیا جس کے 80 سال کا سفر مکمل ہو چکا ہے۔ نوائے وقت نے قیام پاکستان اور دو قومی نظریہ کے مطابق تشکیل پاکستان کے لئے یادگار اور شاندار کردار ادا کیا جس کا سہرا جناب حمید نظامی جناب مجید نظامی اور محترمہ رمیزہ نظامی کے سر ہے۔ پاکستان اور دنیا کو کرونا وائرس جیسے موذی مرض کا سامنا ہے اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور انکساری سے التجا ہے کہ وہ اپنی مخلوق پر رحم فرمائے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...