کرونا وائرس… پابندیاں اور بے بس کشمیری!

ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا، گو عباسیوں نے طویل عرصہ تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی ۔ہارون الرشید دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا ۔ اس قحط کے اثرات سمر قند سے بغداد اور کوفہ سے مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔ ہارون الرشید نے قحط سے نمٹنے کے لیے تمام تدبیریں آزما لیں، غلے کے گودام کھول دئیے ، ٹیکس معاف کردئیے ، پوری سلطنت میں سرکاری لنگرخانے قائم کردئیے اور تمام امراء اور تاجروں کو متاثرین کی مدد کے لیے متحرک کردیا لیکن اس کے باوجود حالات ٹھیک نہ ہوئے ۔ ایک رات ہارون الرشید شدید بے چینی میں تھا، اسے نیند نہیں آرہی تھی ،ٹینشن کے عالم میں اس نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا ، یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کا استاد بھی تھا ، اس نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی ۔ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا’’ استا د محترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی ، کوئی ایسی داستان سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آجائے۔‘‘ یحییٰ بن خالد مسکرایا اور عرض کیا’’ بادشاہ سلامت میںنے اللہ کے کسی نبی کی حیات میں ایک داستان پڑھی تھی۔داستان مقدر ، قسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اورشاندار تشریح ہے ۔ اب اگرآپ اجازت دیں تو میں آپ کے سامنے دہرا دوں ۔‘ ‘ بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا۔ استاد فوراًفرمائیے ۔ میری جان حلق میں اٹک رہی ہے ۔‘‘ یحییٰ خالد نے عرض کیا۔’’ کسی جنگل میں ایک بندر یا سفر کے لیے روانہ ہونے لگی ، اس کا ایک بچہ تھا ، وہ بچے کو ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کیا کہ جناب آپ جنگل کے بادشاہ ہیں ، میں سفرپر روانہ ہونے لگی ہوں ،میری خواہش ہے آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمہ لے لیں ۔ شیر نے حامی بھرلی ، بندریا نے بچہ شیر کے حوالے کردیا ،شیر نے بچہ کندھے پر بٹھالیا، بندریا سفرپر روانہ ہو گئی ۔ اب شیر روزانہ بندریا کے بچے کو کندھے پربٹھاتا اورجنگل میں روز مرہ کے کام کرتا رہتا ۔ ایک دن وہ جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل نے ڈائی لگائی ، شیر کے قریب پہنچی ، بندریا کا بچہ اٹھایا اور آسمان میں گم ہو گئی ۔شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا ۔ یحییٰ خالد رکا ، سانس لی اور بادشاہ سے عرض کیا ، جناب عالی چند دن کے بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کیا۔ شیر نے شرمندگی سے جواب دیا، تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے ،بندریا کو غصہ آیا اور اس نے چلا کر کہا تم کیسے بادشاہ ہو ؟تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکتے ، تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلائو گے ، شیر نے افسوس سے سرہلایا اور بولا ، میں زمین کا بادشاہ ہوں ، اگر زمین میں سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا ، لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی ا ورآسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے ۔یہاں یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا ۔ قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے ، یہ آسمان کا عذاب ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ روک سکتا ہے ۔چنانچہ آپ اسے رکوانے کے لیے بادشاہ نہ بنیں۔فقیر بنیں ، یہ آفت رک جائے گی ۔‘‘ دنیا میں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔آسمانی مصیبتیں اورزمینی آفتیں۔ آسمانی آفت سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ زمینی آفت سے بچائو کے لیے انسانوں کا متحد ہونا ، وسائل کا بھرپور استعمال اور حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے ۔ یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید کو کہا تھا’’ بادشاہ سلامت آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک انسان اپنے رب کو راضی نہیں کرلیتا ۔آپ اس آفت کا مقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کر سکتے ۔آپ فقیر بن جائیے۔ اللہ کے حضور گر جائے ، توبہ کیجئے ، اس سے مدد مانگیئے۔ دنیا کے تمام مسائل اور ان کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا ماتھے اور جائے نماز میں۔ افسوس کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے سات سمندر پار تو جا سکتے ہیں مگر ماتھے اور جائے نماز کے درمیان چند انچ کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔
قارئین محترم ۔ رب تعالیٰ توبہ اور معافی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں توبہ اور معافی کے دو واقعات کا بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ حضرت آدم ؑ جنت میں خوشگوار زندگی گزار رہے تھے، کوئی مسئلہ یا پریشانی نہ تھی مگر ایک دن شیطان کے بہکاوے میں آگئے اور غلطی سرزد ہو گئی ۔ اللہ نے جنت سے نکال دیا ۔ حضرت آدم نہ جانے کتنا عرصہ روتے رہے شرمندہ ہوئے ، نادم ہوئے ۔ پھر اللہ کریم نے ہی ان کے دل میں توبہ کے لفظ کا نزول فرمایا۔ توبہ کرتے کرتے بھی نہ جانے کتنا عرصہ ہوا ۔ بالاخر توبہ قبول ہو گئی اور حضرت آدم دوبارہ اللہ کے پسندیدہ بندے کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگے ۔ دوسرے و اقعہ قرآن پاک میں حضرت یونسؑ کا ہے ۔ اپنی امت کے عذاب کے سلسلہ میں ہلکی سی لغزش ہو گئی ۔مچھلی کے پیٹ میں ڈال دئیے گئے ۔ اللہ نے ان کے دل میں آیات کریمہ نازل فرمائی۔ وہ مسلسل وظیفہ فرماتے رہے ۔ مچھلی کا پیٹ جسے رب تعالیٰ نے خود ’’ ظلمات ‘‘ کہا ہے تین دن اور تین راتیں گزارنے کے بعد جاکر کہیں معافی ملی ۔ جہاں تک کسی آفت یا مصیبت میں احتیاط ، حفاظت یا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے ایک بار پھر قرآن کریم میں رب تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا کہ قحط آئے گا اور اس کا پہلے سے انتظام کرنا پڑے ہوگا ۔ بالکل ایسے ہی کرونا وائرس کے سلسلہ میں ہمیں ہر طرح کی احتیاط کرنا ہوگی ۔ سوشل بیٹھک اور ملاقاتوں میں کمی کرکے احتیاط برتنا ہوگی۔ ہاتھوںکی صفائی ا وردیگر ہدایات کہ جن کی مکمل تشہیر ہو رہی ہے کا مکمل خیال رکھ کر جہاں حکومت وقت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے۔ وہاں انفرادی اور گروہی کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔ لیکن بات رویوں کی ہے ہمیں وائرس سے لڑنا ہو گا ۔ اپنی قوت مدافعت بڑھانا ہو گی نہ کے ڈراور خوف میں مبتلا ہونا پڑے گا۔صدر صدام حسین نے 1991 ء میں کہا تھا کہ امریکہ اُسے عراق میں کرونا وائرس پھیلانے کا ڈراوا دے رہا ہے ہم اتنی بڑی ایٹمی طاقتیں ہونے کے باوجود ایک وائرس کا مقابلہ تونہیں کر سکتے ۔ بے بس ہو گئے ہیں۔ مجبور ہو گئے ہیں اور محدود ہو گئے ہیں ۔ مجھے دنیا بھر میں انسانوں کی بے بسی اور لاک ڈائون ہونے کی کیفیت دیکھ کر مقبوضہ کشمیر کے بے بس ، مجبور اوردکھی انسان یاد آرہے ہیں ۔ان بیچاروں کے پاس تو کھانا کھانے کے لیے بھی مکمل وسائل دستیاب نہیں۔ادویات اور دیگر سہولتیں تو بڑی دور کی بات ہیں ۔میری بات کا ایک مخصوص حلقہ شاید مذاق ہی اڑائے مگر میرا دل کہہ رہا ہے کہ یکدم جو مصیبت آئی ہے اس میں ان مظلوم کشمیریوں کی بدعائیں بھی شامل ہیں کہ اتنے بڑے ملک ، اتنی بڑی سپرطاقتیں کشمیریوں کو کرفیو جیسی پابندیوں سے آزادنہ کروا سکیں یہ سب مل کر بھی 90 لاکھ کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ نہ کر سکے۔ کیا وہاں کے رہنے والوں کو تعلیم کا حق حاصل نہیں، بیماریوں کے حوالے سے ہسپتالوں میں جانے اور علاج معالجے کا حق حاصل نہیں۔ کیا وہاں کی عورتوں کو زچگی کے دوران کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کیا وہاں کے لوگ ابلاغ کے لحاظ سے باخبر رہنے کا حق نہیں رکھتے، کیا وہاں کے رہنے والوں کو اندرونِ کشمیر سفر کا حق حاصل نہیں، مگر کون ہے جو اُن کمزوروںکی آواز بن سکا۔ اللہ کے کام میں دیر ہوتی ہے ۔اندھیر نہیں۔رب تعالیٰ نہتے کشمیریوں کی بھی ضروری سنیں گے اور نہ صرف اُن کے حقوق بحال ہونگے جبکہ اُنہیں آزادی بھی انشاء اللہ نصیب ہو گی۔ ضرورت ہمیں اجتماعی توبہ او ر معافی کی ہے ۔ رب تعالیٰ ہمارے اکابرین کے دلوں میں توفیق عطا فرمائے کہ وہ ماتھے اور جائے نماز کے درمیان چند انچ کا فاصلہ جلد سے جلد ختم کرسکیں گے۔آمین

ای پیپر دی نیشن