ملک بھر میں غیر قانونی تعمیرات کا رواج عام ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے بغیر نقشہ پاس کرائے بڑے بڑے کمرشل پلازے تعمیر کر لئے ہیں خصوصا وفاقی دارلحکومت اور راولپنڈی شہر میں تو حد ہی ہو گئی ہے پہلے پہل تو شہروں میں تجاوزات کی بھر مار کا رونا تھا لیکن اب تو لوگ نقشہ پاس کرانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ہیں۔البتہ کنٹونمنٹ کے علاقے غیر قانونی تعمیرات سے اس لئے محفوظ ہیں کہ ان کا کنٹرول آرمی کے پاس ہے جہاں کسی قسم کی تعمیر سے قبل اراضی کو لیز کرانا پڑتا ہے اس لئے ان علاقوں میں غیر قانونی تعمیرات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔لیکن جن جن شہروں میں بلدیات ، ایل ڈی اے، ایف ڈی اے اور آر ڈی اے کا کنٹرول ہے وہاں غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا ہے۔اب تو صورت حال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ لوگ کمرشل پلازے اور دیگر تعمیرات شروع کر دیتے ہیں جب ان اداروں کا کوئی اہل کار آتا ہے تو اس کی مٹھی گرم کر دی جاتی ہے اور تعمیرات جاری رہتی ہیں۔لیکن ان اداروں کے افسران اور اہل کاران کارروائی ڈالنے کے لئے کبھی کھبار ایسے لوگوں کی غیر تعمیرات جن کی کوئی سیاسی واسبتگی نہیں ہوتی ان کی غیر قانونی تعمیر ات گرا کر فائلوں کا پیٹ بھر دیتے ہیں۔لیکن وہ لوگ جو اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں ان کی غیر قانونی تعمیرات کی طرف کوئی جانے کی جرات نہیں کرتا ۔گذشتہ دور میں تو جن لوگوں کی وابستگیاں برسراقتدار لوگوں کے ساتھ تھیں انہوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ایسے لوگوں نے ان جگہوں پر بھی تعمیرات کر لیں جہاں کمرشل پلازے تعمیر کرنے کی قانون اجازت ہی نہیں دیتا تھا۔ وفاقی دارلحکومت کی ایک بڑی مارکیٹ میں اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر کئے جانے والے شاپنگ مال کے اوپر بہت سے فلوربغیر نقشہ پاس کرائے تعمیر کر لئے گئے چنانچہ اس دوران سپریم کورٹ نے بھی اسلام آباد میں غیر قانونی تعمیر کا نوٹس لے لیا تو اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے نے غیر قانونی فلور کو سیل کر دیا جس کے بعد پلازے کے مالک کے خلاف نیب میں بھی کیس دے دیا گیا۔ اس طرح جب اسلام آباد سے شاہراہ کشمیر کی طرف سے گولڑہ شریف کی طرف جائیں تو غیر قانونی مارکیز کی لائن لگی ہوئی تھی جو کوئی تھوڑی بہت سرکاری اراضی پر تعمیر نہیں کی گئی تھیں بلکہ وہ ہزاروں ایکٹر سرکاری زمین پر تعمیر کی گئی تھیںتو کیا یہ تعمیرات سی ڈی اے والوں کے علم میں لائے بغیر تعمیر ہو سکتی تھیں؟لیکن یہ سارا کام ترقیاتی ادارے کی نگرانی میں ہوتا رہا جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تو تمام تعمیرات مسمار کر دی گئیں۔ایسے ہی اسلام آباد میں ایک بہت بڑے شاپنگ مال کی اتنظامیہ نے سرکاری اراضی پر بہت بڑی پارکنگ بنا رکھی تھی لیکن سی ڈی اے کو باامر مجبوری اسے بھی ختم کرنا پڑا حالانکہ اگر پارکنگ اور سی ڈی اے کے دفاتر کے درمیان چند منٹ کی مسافت ہے۔اب ہم اپنے شہر راولپنڈی کی طرف آتے ہیں جس کا کوئی پرسان حال نہیں جگہ جگہ بغیر نقشہ پاس کرائے کمرشل پلازوں کی تعمیر ہو چکی ہے اگر آر ڈی اے اور ٹی ایم اے کے لوگ صدق دل سے اور ایمانداری کے ساتھ غیر قانونی تعمیرات کا سراغ لگائیں تو آدھا شہر غیر قانونی تعمیرات کی زد میں آسکتا ہے شہریوں کو عجیب صورتحال کا سامنا ہے مارکیٹوں کے باہر برآمدے جو عوام کی گذر گاہ ہوا کرتے تھے وہاں اب چھوٹی چھوٹی دکانیں اور کیبن بن چکے ہیںراجا بازار ہو یا سیٹلائٹ ٹاون کی کمرشل مارکیٹ کوئی شہری پیدل گذر نہیں سکتا ۔آرڈی اے اور ٹی ایم اے والے محض دکھلاوئے کی خاطر کبھی کبھار چکر لگا لیتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ آنے سے قبل اپنی آمد کی اطلاع پہلے کر دیتے ہیں جس کے بعد ان کی آمد سے پہلے ہی دکاندار اپنا سامان اٹھا کر ادھر ادھر کردیتے ۔ایک موقع پر تو تجاوازت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس عبادالرحمن لودھی کو تجاوازت کے خلاف بذات خود شہر کا دورہ کرنا پڑا تھا چنانچہ جتنا عرصہ وہ پنڈی بینچ میں رہے شہر کی حالت کو بہتر ہوئی تھی لیکن ان کے جانے کے بعد ٹی ایم اے والوں کا دھندہ شروع ہو گیا۔تاہم جب کبھی ٹی ایم اے کا کنٹرول بیوروکریٹس کے پاس آتا ہے تو غیر قانونی تعمیرات اور تجاوازت میں خاصی کمی ہو جاتی ہے لیکن سیاسی دور میں جب اہل اقتدار اپنے خدمت گاروں کو بلدیات کی سربراہی سونپتے ہیں تو شہروں کی حالت ابتر ہو جاتی ہے۔کیونکہ انہیں شہریوں کی فلاح وبہود سے کوئی دل چپسی نہیں ہوتی بلکہ انہیں صرف مال پانی سے غرض ہو تی ہے انہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ نہ جانے کب حکومت ختم ہو جائے اور ان کا دھندہ کسی وقت بھی ختم ہو سکتا ہے ہم یہ بات دعوی سے کہ رہے ہیں کہ جتنی غیرقانونی تعمیرات اور غیر قانونی نقشہ جات کی منظوری سابق دور میں ہوئی ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے آر ڈی اے اور ٹی ایم اے کے بعض افسران اور ملازمین کے خلاف غیر قانونی نقشوں کو پاس کرنے اور سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کرنے کے الزم میں مقدمہ درج کر لیا ہے لیکن اس کے ساتھ اینٹی کرپشن کے محکمہ کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی تحقیقات کو جلد از جلد مکمل کرنے کے بعد چالان اینٹی کرپشن کورٹ میں پیش کردے تاکہ جو افسران اور ملازمین غیر قانونی دھندے میں ملوث ہوں وہ اپنے کئے کی سزا پا سکیں ورنہ اگر اینٹی کرپشن نے بھی حسب سابق مقدمہ کی تفیش اور چالان مکمل کرنے میں تاخیر کی تو ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے یہ لوگ سزا پانے سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔آخر میں ہم پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے درخواست کریں گے کہ وہ پنجاب کے بڑے بڑے شہروں اور خصوصا راولپنڈی میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف ایک بڑا آپریشن کرکے عوام کی دعائیں لیں۔
غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کا مسئلہ
Mar 21, 2020