’’قومی استقلال کی حفاظت کا عدیم المثال فرض‘‘

شاعرمشرق مفکر پاکستان علامہ اقبال نے اپنا پہلا لیکچر مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کے پْرزوراصرار پرکتابی شکل میں جب مکمل کیا اس لیکچرپر مبنی کتاب کی تقریب رونما ئی کے لئے گھوکھلے ہال مدراس میں خصوصی تقریب کی گئی۔ صدارت مدراس کے چیف منسٹرڈاکٹر پی سبرائن نے کی تھی، ڈاکٹر پی سبرائن نے اپنے صدارتی کلمات میں مدلل سیاسی وسماجی اور ثقافتی دلائل کی روشنی میں کہا ’’میں بارہا کہہ چکا ہوں یہ ہندووؤں کا فرض ہے کہ وہ مسلم اقلیت کو اطمینان دلائیں کہ اس سرزمین میں مسلمان بھی بھائیوں کی طرح اپنی زندگیاں بسر کریں گے میرے لیے باعثِ عزت ہے اگرچہ میں ہندوہوں لیکن اسلامی فلسفہ پر لیکچر کی صدارت کے لیے منتخب کیا گیا ہوں اس پر میں خوش ہوں کہ اِس صوبے کے مسلمانوں کا زاویہٗ نگاہ صحیح ہے اسلام نے مشرق کو بلکہ ساری دنیا کو اخوت کا سبق دیا ہے، ہم ہندو ذات پات اور قومی امتیازات میں پھنسے ہوئے ہیں،ہمیں ابھی اسلامی تہذیب اور اسلامی کلچر سے اخوت کا سبق سیکھنا ہے،میں یہاں غیربرہمن کی حیثیت میں تقریر نہیں کررہا اور نہ اس نقطہٗ خیال سے ذات پات کے خلاف کہہ رہا ہوں ہندووؤں اور مسلمانوں کو یکجا کرنے اور تمام ہندوستانی اقوام میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے ہمیں اسلامی اخوت کودلیلِ راہ بنانا ہے‘‘ یہ وہ تاریخی اقرارکی حقیقت ہے جو بھارت کے صف اول کے ممتازترین لیڈر پی سبرائن نے پانچ جنوری انیس سوانتیس میں مدراس کے گھوکھلے ہال میں دنیا کے سامنے پیش کی تھی مسٹر پی سبرائن کوآج کے بھارت میں اگر کوئی نہیں جانتا توجناب وہ اور کچھ بھی ہوسکتا ہے بھارتی شہری البتہ ہی نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندو بھی نہیں ہوسکتا،جنونی اور متعصب ہندووں کی تو بات ہی چھوڑئیے سب سے پہلے ایسے ہربے خبربھارتی ہندووں کو بھارت سے فورا نکال دیناچاہیئے’’ پی سبرائن برصغیر کی تاریخ میں ’’آزادی کے ہیرو‘‘ کے طور پر ہمیشہ مانے جاتیرہیں گے، تئیس مارچ کو’’یوم پاکستان‘‘مناتے ہوئے راقم یہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال کے انقلابی ممکنات کے دائرہ ِامکان کے پُرزورپیروکاراوربے حدمخلص پاکستانی نوجوان خرم علی شیفق کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین ضرور پیش کرنا چاہیئں گے ’’اقبال آشنا‘‘اس پاکستانی نوجوان نے نئی نسل کی رہنمائی کے لئے ’’سیمرغ‘‘کے نام سے بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر علامہ اقبال کے خطبات اوراْن کے ایمان افروز فلسفے کو سمجھنے اورسمجھانے کے لئے ایک بڑی اہم ویب سائٹ تشکیل دی ہے، جس میں مفکرپاکستان علامہ اقبال کے حوالے سے کیا کچھ نہیں ہے’’سیمرغ‘‘ سے استنباط کرتے ہوئے خرم علی شفیق کا ہم شکریہ ادا کرتے ہوئے ’’یوم پاکستان‘‘پر اپنے لکھے گئے کالم میں قارئین کو بتانا چاہئیں گے کہ علامہ اقبال کی فکری اپچ کی روشنی میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر ممتاز بانیان پاکستان نے 90 برس کے بعد آج کے (ہندوستان) جواصل میں اب’’بھارت‘‘ ہے وہاں کے رہ جانے والے مسلمانوں پرمصیبت وابتلا کے یہ جو بڑے اذیت ناک دن گزر رہے ہیں اس کا احساس مفکرپاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کوآج سے اکہتر برس قبل ہوچکا تھا،آئیے ذرا ہمارے ساتھ ماضی کے اْن دریچوں میں جھانکیں’’اپریل 1946 کا زمانہ عہد غلامی کی زنجیریں ابھی پوری طرح سے کٹی نہیں تھیں ہاِں، لیکن زنگ آلود ہوکر کمزور سی پڑتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی تھیں،محترم علام رسول مہر اور محترم عبدالمجید سالک جیسے انتہائی لائق احترام اور قدآور صحافی جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا روزنامہ انقلاب کی13 اپریل1946 کی اشاعت میں ایک بہت اہم اداریہ شائع ہواتھا ’’قومی استقلال کی حفاظت کا گرانبہا فرض‘‘مسلمانوں کا حلف نامہ جسے پڑھ کر یقینا آج کے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو انسانی بے قدری کے اس دور میں یقینا ایمانی تقویت وقوت بہم پہنچاسکتی ہے یہاں اسی تاریخی حلف نامہ کے اس اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے بھارت رہ جانے والے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے والے آرایس ایس کے مسلح جتھوں کے غنڈہ گردی کے حملوں کا ادراک اْس وقت کے بانیان پاکستان سمیت قائداعظم محمد علی جناح کو برابر تھا پہلے ایک نظر روزنامہ انقلاب کے ادارئیے پر ڈال لیتے ہیں جس میںیہ کہا گیا تھا کہ ’’میں باضابطہ طریق پر اپنے اس پختہ عقیدے کا اعلان کرتا ہوں کہ ہندوستان کے اس چھوٹے براعظم میں ملتِ اسلامیہ کے جوعناصر آباد ہیں اْن کی تقدیر،نجات،حفاظت اور سلامتی صرف پاکستان کے حصول پرموقوف ہے، یہی اس ملک کے دستوری مسائل کا منصفانہ، عادلانہ اورعزت مندانہ حل ہے اور اسی کے ذریعے یہاں کی مختلف قوموں اور فرقوں کو اقبال مندی،آزادی اور امن کی دولت حاصل ہوگی،میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اقرار کرتا ہوں کہ پاکستان کے عزیز قومی نصب العین کیلئے اگر آل انڈیا مسلم لیگ نے کوئی تحریک جاری کی تو میں مسلم لیگ کے تمام احکامات وہدایات پر دلی رضامندی اور استقامت کے ساتھ عمل کروں گا میراعقیدہ ہے کہ جس مقصد کو لے کر کھڑا ہوا ہوں وہ حق وانصاف کے عین مطابق ہے لہذا میں حلف اْٹھاتا ہوں کہ خطرے اورامتحان کی جو منزل سامنے آئے گی اْسے طے کرنے کے لئے آمادہ ہوں گا اورجس قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا اْس میں تامل نہیں کروں گا‘‘ بقول خرم علی شفیق ’’ہم نے یہ تاریخی حلف نامہ اس غرض سے لفظاًلفظا ًنقل کردیا ہے کہ اسے اسمبلیوں تک محض محدود نہیں کرنا رہنا چاہیئے بلکہ جو مسلمان پاکستان کے مطالبے کو برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی نجات کا مدار تسلیم کرتے ہیں اور اِس کے لئے اپنے دل میں تڑپ بھی رکھتے ہیں، بحیثیت مسلمان اْسے یہ حلف اْٹھانے میں تامل نہیں ہونا چاہیئے‘‘یہ ایک طویل مضمون ہے پڑھنے کے لائق ہے آگے چل کر خرم صاحب لکھتے ہیں’’ بلکہ ہم تو اپنے بھائیوں سے بھی مخلصانہ تعاون کے آرزومند ہیں جو پبلک جلسوں میں بڑے فخروطمطراق کے ساتھ لیگ پر بے بنیاد تضحیک آمیز جماعت ہونے کے الزامات عائد کرتے رہے اورکہتے رہے کہ وہ پاکستان کے حصول کے لئے ’’قربانیوں‘‘کے میدان میں کبھی قدم نہیں رکھیں گے؟‘‘کاش،اْن میں سے آج کوئی بقید حیات ہوتا تو وہ خود دیکھتا کہ مفکر پاکستان علامہ اقبال اور بانیان پاکستان کے متفقہ قائد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جس دوقومی نظرئیے کا موقف پیش کیا تھا وہ صحیح تھا یا جو براہمن واد کانگریسی قائدین کی کس قدر’’ڈھیٹ نما سیاسی‘‘سوچ تھی آسام سے مقبوضہ وادی تک کے جانے مانے سبھی مسلم سیاسی لیڈر کیا آج ببانگ دہل تسلیم نہیں کررہے ؟موجودہ بھارت کے سیاسی کرتادھرتاوں نے صاف لفظوں میں اپنا متعصبانہ فیصلہ سنادیا ہے کہ ’’مسلمانوں کے لئے بھارت میں اب کوئی جگہ نہیں ہے‘‘5 اگست2019 کو نئی دہلی کی طرف سے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وادی کو بھارت میں ضم کیئے جانے والے متنازعہ فیصلے کو کشمیری مسلمانوں نے بالکل رد کردیااور تاحال کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور پھر عین اوپر سے بھارتی مسلمانوں پر اْن کی زمین تنگ کرنے کی بدنیتی کھل کر سامنے آگئی ’’شہریت کے ترمیمی بل‘‘نے بھارت میں انسانی آبادی کے واضح ایک بڑے حصہ کے انسانی حقوق پر شب خون ماردیا گیا آج کے بھارت کے حالات دن بدن ’’ابلیسی خواہشات‘‘کے تابع ِفرمان بننے لگے ہیں کل سے زیادہ اب پاکستانی عوام کو اپنے ایمانی افروز دینی فرائض کی بجاآوری کے پیش نظر باہم اتحادواتفاق سے دنیا پر ثابت کرنا ہوگا بھارت سمیت دنیا کے ہر خطہ کے مسلمانوں دین اسلام کی انقلابی اورحرکی روح سے کل بھی سرفراز تھے آئندہ بھی سرفراز رہیں گے انشا اللہ۔

ای پیپر دی نیشن