مفصل میں کام کرنیوالے رپورٹرز کے ساتھ ٹی وی چینلز کا تعلق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اسے اپنے لوگو والا مائیک اس ہدایت کے ساتھ مہیا کر دیتے ہیں کہ جی بھر کر کمائو، خود بھی کھائو اور ہمیں بھی کھلائو۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ چینلز کا اپنے نمائندگان کے ساتھ کچھ کچھ تعلق تو ہوتا ہے، مگر چٹپٹی خبریں اور فوری کلپس حاصل کرنے کے لئے عوامی رپورٹرز کی ایک ان دیکھی رضا کار فوج بھی چینلز والوں کو میسر ہے۔ سمارٹ فون رکھنے والا ہر شخص جس کا سپاہی ہے۔ کہیں چوری چکاری یا کوئی چھوٹا موٹا واقعہ بھی ہو تو وہ اسے ڈکیتی اور راہ زنی کا نام دیکر ’’ملزم‘‘ کو گھیر لیتے ہیں۔ یہ رضا کار صحافی خود ہی تفتیشی ، خود ہی جیوری اور جج بن بیٹھتے ہیں اور فیصلہ اس ادا سے سناتے ہیں کہ ان کے شور و غوغا سے اکٹھا ہونے والا مجمع ملزم پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ جو اکثر اوقات اس بدنصیب کی موت پرمنتج ہوتا ہے ، اور چینلز مزے لے لے کر اس کارنامے کی رپورٹ نشر کر رہے ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں میں ایسی متعدد وارداتیں منظر عام پر آ چکیں۔ یہ تماشہ افسوسناک ہی نہیں ، قانون کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ عوامی مفاد میں یہی ہے کہ چینلز ایسے شوقیہ فنکاروں کی حوصلہ افزائی سے توبہ کر لیں۔