صدارتی فکری نشست کے فرائض؟

وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے گزشتہ دنوں جاری کئے گئے بیان میں جہاں وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے بعض باتیں منظرِ عام پر آئیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت ہونے والی ایک ’’فکری نشست‘‘ کا بھی مژدہ سنا گیا۔ یہ ’’فکری نشست‘‘ کس موضوع پر تھی؟ اس میں گم گشتہ راہ قوم کے کن لوگوں یا نمائندوں نے شرکت کی اس بارے میں میں ونگ کے کرتا دھرتا بزرجمہرروں کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا۔ قومی اخبار نوائے وقت میں شائع شدہ خبر کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے وزیراعظم عمران خاں سے ملاقات کے دوران انہیں اس فکری نشست کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر موصوف وزیراعظم سے اس فکری نشست کے انعقاد کی ضرورت و اہمیت واضح کرتے ہوئے اس میں زیرِبحث آنے والے معاملات سے بھی میڈیا ونگ کے ذریعے قوم کو آگاہ کرتے، تاہم ایسی تمام تر فروگزاشتوں کے ہوتے ہوئے بھی موجودہ حکومت کی طرف سے صدارتی سطح پر ’’کسی فکری نشست‘‘ کا انعقاد انتہائی خوش آئند ہے کیونکہ اس ملک میں پہلی دفعہ کسی حکمران جماعت یا برسرِاقتدار قیادت کو ’’فکری نشست‘‘ کے نام سے کسی ایسے خصوصی اجلاس کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہی نہیں ہوا بلکہ اس احساس کو عملی جامہ پہنانے پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بھی نصیب ہوتی ہے، جس میں ملک کے سیاسی تناظرمیں ایسے معاملات وسائل کے حل کی طرف موثر اقدامات اٹھانے پر غور و فیصلے کئے جائیں۔
اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے پیر نورالحق قادری کو بعض معاملات کے حوالے سے کچھ ضروری ہدایات بھی دیں، وہاں انہوں نے ایک پتے کی بات یہ بھی کہی کہ معاشرتی اصلاح کے لئے علماء کرام سے مل کر منبر و محراب کے موثر کردار کو جاری رکھا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اس امر کا اظہار انتہائی خوش آئندہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ کی ثقافتی اقدار اور تہذیب و تمدن کا تحفظ اور فروغ ہماری اولیں ترجیح ہے اور حکومت ملک کے اصل تشخص کو اجاگر کرنے کی ہر کوشش کی بھرپور حمایت کرے گی۔ ایسی باتیں اگرچہ برسبیل تذکرہ ہی کیوں نہ ہوں ، اس سے کم از کم اس حقیقت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ ملک کی برسرِ اقتدار قیادت کو ملکی معاشرہ کی ثقافتی انداز اور مخصوص تہذیب و تمدن کا نہ صرف پاس بلکہ پوری طرح احساس ہے اور ان کے فروغ کو ان کے نزدیک اولیت حاصل ہے لیکن ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی‘‘ کے مصداق صرف ایس حقیقتوں کا زبانی اظہار کرنے سے ہی مقاصد کا حصول ممکن نہیں اس کے لیے موثر عملی اقدامات ایسے اقدامات جو اندرون اور بیرون ملک دیکھے جا سکیں بلاتاخیر اٹھانے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے جوزبانی کہا اس سے ان کے فکری رحجانات اور منتہائے مقصود کی یقیناً نشاندہی ہوتی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اپنے سیاسی قائد کے ایسے ’’ویژن‘‘ کو عملی شکل دینے کی ذمہ دار ٹیم اس بارے میں کہاں تک سنجیدہ ہے اور اس ٹیم میں شامل وزیر اعظم کے بزعم خود بہی خواہ ساتھیوں کی طرف سے اس حوالے سے کون سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں یا ان اقدامات کو اٹھانے کا کوئی مربوط پروگرام مرتب کیا گیا ہے اگر ایسا کیا گیا ہے تو ان کو عملی شکل دینے میں انہیں کونسی قباحت آڑے آ رہی ہے۔
جبکہ ایسے اقدامات کو مؤثر طور پر بروئے کار لائے بغیر وزیراعظم عمران کے دن خواب شرمندۂ تعبیر ہونا ممکن نہیں جن کا ذکر انہوں نے خود کیا ہے۔ جہاں تک اس سلسلے میں اب تک کے رونما ہونے والے حقائق و واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بعض قومی اور ملکی اہم ترین مسائل کے حل کے لئے ملکی اور غیر ملکی سطح پر بحیثیت وزیراعظم پاکستان اپنی قوم کے جذبات و احساسات کی جس دلیرانہ اور جرأت مندانہ انداز میں ترجمانی کی ہے۔ ان کے مؤقف کو ایسے معاملات میں تقویت دینے اور ان میں تواتر کے ساتھ اقوام عالم کو قومی مؤقف سے آگاہ کرتے رہنے کے لئے ان کی حکومت کے اعضاء و جوارح نے رتی بھر کسی قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ وہ لوگ ہیں جو وزیراعظم کی ٹیم کے ارکان کی حیثیت سے ان غریب پاکستان کے ٹیکسوں سے بھارتی تنخواہیں وصول کرتے ہیں مگر اپنے حقیقی فرائض پشت ڈال کر وزیراعظم کی ہر بات پر صرف باجماعت واہ واہ کے ڈونگرے برسانے کا روگ الاپنے ہی پر اکتفا کرتے چلے جا رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے پروگرام ہی آزاد ، خودمختار قوموں اورملکوں میں ہمیں برسرِ اقتدار افراد کی ’’فکری نشستوں‘‘ میں ترتیب پایا کرتے ہیں مگر ایسی فکری نشستیں محض نام کی نہیں بلکہ ’’سچ مچ‘‘ کی فکری نشستیں ہوا کرتی ہیں۔ ان نشستوں میں قوموں اورملکوں کی اعلیٰ علمی ، ادبی ، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے تحفظ اور بقاء و فروغ کے لئے لائحہ عمل مرتب ہوا کرتے ہیں۔ قوم کواگر صدارتی سطح پر فکری نشست کے انعقاد کی بسم اللہ ہونے کی نوید دی گئی ہے تو اسے حقیقی معنوں میں فکری نشست کا مقام دے کر وزیراعظم کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لائحہ عمل مرتب کرنے کا کام لیا جانا چاہئے۔ ایسی ہی فکری نشست میں قوم کے زرکثیر سے پلنے والے وزیر اعظم کے بزعم خود بہی خواہ، ٹیم کے ساتھیوں سے سوال ہو گا کہ انہوں نے اپنے سیاسی قائد کے ویژن بالخصوص مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے بارے میں اپنے سیاسی قائد کے ویژن اور ان کی سرفروشانہ جدوجہد کو اقوام عالم کے دلوں میں راسخ کرنے کے لئے کونسا پروگرام بنا کر روبہ عمل لائے اس حوالے سے حکومتی سرپرستی میں کون سا لٹریچر شائع کیا جس سے بھارت کے بنیادی پرست ہندو حکمرانوں کے مسلمان دشمن عزائم کا ثبوت ملتا ہو۔

ای پیپر دی نیشن