زندگی واقعات کا تسلسل ہے، کچھ لوگ اسے سرسری نظر سے دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ بذات خود اس زندگی کے معرکے میں حصہ لیتے ہیں اور قوت ایمانی لگن اور محنت جیسے ہتھیاروں سے اس کارزار میں کامیابی حاصل کرتے ہیں
سرسری تم جہان سے گذرے
ورنہ ہر جہاں جہان دیگر تھا
سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خاں کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں انہوں نے ایک سائیکل سوار بچے سے لے کر اپنے چیف جسٹس بننے تک کے سفر کو من وعن صفحہ قرطاس پر منتقل کردیا ان کے ہاں جہاں سیکھنے کو بہت کچھ ہے وہاں سکھانے کو بہت کچھ ہے اور بلاشبہ ارشاد نامہ نہ صرف قانون اور تاریخ کے طالب علم کے لئے ایک خزانہ ہے بلکہ عام قاری کے لئے بھی سیاسی گتھیاں سلجھانے کے لئے بھی مددگار ہے جسٹس گلزار احمد ان کی انہی صلاحیتوں پررقمطراز ہیں کہ پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں یوں تو اکثر تعداد میں ججوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں پراس کثیرتعداد میں کچھ ایسے ہیں کہ جن کی شہرت نمایاں ہے اس فہرست میں ارشاد حسن خان کا نام نمایاں ہے ۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
ان کے تجربات پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ان کا تعلق اقدار روایات روحانی اقدار اور زمینی حقائق سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہے وہ خود اس بات کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ میرے بچپن کا ایک وصف یہ بھی ہے جو اب مزید پختہ ہوگیا ہے کہ حالات خواہ کیسے رہے ہوں میرے یقین کی قوت کبھی ماند نہیں پڑی اس کی بنیاد اللہ تبارک تعالیٰ پر یقین تھا اس قوت نے مجھے نظریہ توحید کا پابند بنادیا ایمان کی یہی مضبوطی ان کی کتاب میں درج فیصلوں سے جھلکتی ہے وہ اپنے پیشہ ورانہ دور میں ڈپٹی اٹارنی جنرل بنے انہیں اعلی عدلیہ کے جج صاحبان کے ساتھ بھی قریبی روابط کا موقع ملااور بہت جلد نہ صرف انکو اپنی صلاحیتں منظر عام پر لانے کا موقع ملا بلکہ انہوںنے خود کو منوایاجسٹس گلزار احمد حوالہ دیتے ہیں کہ اکتوبر 1990 کو اسوقت کے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو اور جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگادیا اس کو چیلنج کرنے کے لئے ظفر علی شاہ کا کیس عدالت میں آیا جسکا فیصلہ اکیس مئی کو آیا جسکو ارشاد حسن خاں نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان تحریر کیا جو کہ تمام ججوں کا متفقہ فیصلہ تھا اس فیصلہ میں جنرل پرویز مشرف کے مارشلء لگانے اور اپنے آپ کوچیف ایگزیکٹو پاکستان بنانے کے اقدامات کو تسلیم کیا گیا اور قانونی حیثیت دی گئی ارشاد نامہ نہ صرف آئین اور جمہوریت کو پامالی سے روکنے کے لئے کاوش کا نام ہے بلکہ عدلیہ کے عزت اور افتخار میں اضافے کا سبب ہے۔ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ جسٹس ارشاد حسن خان نے اپنی سوانح عمری لکھ کراعلیٰ مرتبت ججزکی فہرست میں اپنا نام شامل کرلیا ہے در حقیقت ارشاد حسن خان اس باطنی سفر کے مسافر تھے جہاں سے روشنی مستعار لے کر انہوں نے اس کی بنیاد رکھی جو راستوں کو جگمگاتی ہے وہ خود اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کا ظاہر بے حیثیت ہے لیکن اسکے باطن میں خدا نے صلاحیتیں رکھی ہیں انہوں نے داستان زندگی لکھ کر مستقبل کے لئے وہ راہیں فراہم کی ہیں جس سے انصاف کے نظام کو تقویت کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخی سیاسی اور قانونی حوالے سے ایک مستند کتاب ہے اور ایک بہترین سرمایہ ہے کیونکہ سوانح عمری کے مقاصد میں احتساب کا موثر نظام عدلیہ کی آزادی انصاف کی فراہم اور خدائے واحد پر یقین کامل جیسے محرکات زندگی کو مضبوط راہیں فراہم کرتے ہیں۔
ارشاد نامہ ایک داستان
Mar 21, 2021