مرد ِآزاد نے کہا ؎ ؎طلب نے چھین لی بینائی میری/یہ روٹی چاندبن کررہ گئی ہے ۔۔۔مسلم لیگ ق کے صدر و سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین نے کہا حکومت اور اپوزیشن ہار جیت پر بھنگڑے ڈال رہی ہے اور عوام بھوک اور مہنگائی کی بگڑی ہوئی حالت پر آہ و پکار کر رہے ہیں اگرمہنگائی اور بیروزگاری کو کنٹرول نہ کیا گیا تو کسی کو ہار جیت کا فائدہ نہیں ہو گا سیاسی متاثرین اسمبلیاں چھوڑ کر عدالتوں کے احاطوں میں بوریا بستر لے کرچلے جائیں۔اس حوالے سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ عوام کا خیال رکھیں۔ حکومت روز بروز مہنگائی اور بے روزگاری کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل مرتب کرے۔کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی لیڈر شپ پر ہوتا ہے۔جس کے بغیر ترقی کی اُمید ایک خواب ہی ہو سکتی ہے۔ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص خصوصیات اور صلاحیتیں رکھی ہیں۔ سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔بقول شاعر؎ طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی/دودھ توڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی/کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا/جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا۔کوئی بھی لیڈر جب منتخب ہوتا ہے تواس کے لئے سب سے ضروری کام عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دینا ہوتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔روزمرہ استعمال کی اشیاء جن میں آٹا، دالیں، چینی وغیرہ شامل ہیں لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ بجلی اور گیس کی طلب و رسد میں موجود فرق میں مسلسل اضافے اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث نہ صرف ملکی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے بلکہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ اب تو تاجر اور صنعت کار برادری بھی صدائے احتجاج بلند کر تی نظر آتی ہے۔ عام آدمی پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کیلیے نہ صرف حکومت بے بس نظر آرہی ہے بلکہ انہی کے ماتحت پرائس کنٹرول کمیٹی کے ممبران میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ حکومت کو کوئی مشورہ دے سکیں کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔پاکستان میں حد درجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے نہ صرف عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بلکہ کاروبار پر بھی منفی اثرات نمایاں ہورہے ہیں۔حکومت کا شاید اس طرف دھیان نہیں یا وہ دھیان دینا نہیں چاہتے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے، باوجود اس کے کہ یہاں کاشتکاری پر توجہ دے کر چیزوں کو سستا کیا جاتا، مگر گندم کو دوسرے ممالک سے منگوایا جارہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تین طرح کے فوری اقدام کرنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ حکومت کس طرح عام شہریوں کی اقتصادی قوت کو بڑھائے تاکہ عوام کے پاس مالی وسائل زیادہ ہوں۔دوم پاکستان میں گھریلو صنعت کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ فوری طور پر بے روزگاری کو قابو میں لایا جاسکے اور معیشت کو بھی تقویت ملے۔ سوم جو سب سے اہم اور بڑی وجہ شرح سود میں کمی لائی جاسکے۔ کیونکہ صنعتی طبقے پر قرضے اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ کاروباری طبقہ اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور ہے۔مہنگائی کے اثرات نے جہاں صنعتوں پر منفی اثرات ڈالے ہیں، وہیں لاقانونیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ وسائل کی تقسیم اوپر سے نیچے تک ہوتی ہے مگر پاکستان میں ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ غیر منصفانہ تقسیم کے باعث معاشرے میں غربت، بے چینی، مایوسی، افراتفری پھیلی ہے اور بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اور ان سارے مسائل کی ایک ہی جڑ مہنگائی اور غربت ہے۔غربت کی ایک اور وجہ کرپشن ہے،کرپشن کی ہمارے معاشرے میں مختلف اقسام ہیں جس کی وجہ سے نظام کا بنیادی ڈھانچا بیرونی طور پر مضبوط مگر اندرونی ساخت کو دیمک چاٹ چکی ہے،اوپر سے نیچے تک ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔قانون اور نظام کے حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ہر فرد آنے والے وقت سے پریشان ہے۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے رکئے۔۔۔اس اندھیرے میں روشنی کی کرن نظر آ رہی ہے۔۔۔ مسیحائی کی امید بندھ رہی ہے۔جب تک چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہی جیسے درد ِدل رکھنے والے عوامی نمائندے عوام کے درمیان اپنا قد برقرار رکھیں گے ۔اگر قوم چاہتی ہے کہ ملک سے غربت اور بدامنی کا خاتمہ ہو تو قائدین کو عوامی ہونا پڑے گااوران کو عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دینا ہوگی۔بقول شاعر؎مہنگائی کے یگ میں سوچو/ماں کی ممتا کیوں سستی ہے۔