احساس کفالت پروگرام بلاشبہ ایک اچھا ،مستحسن اورغریب عوام کو مالی امداد فراہم کرنے کا اچھا ذریعہ ہے ۔لیکن آج بھی مؤثر طریقے سے نافذ العمل ہونے میں ناکام ہے۔ عوام کی ذلالت کا سفر اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب نمائندے گھر گھر سروے کرتے ہیں یا تو ڈیٹا صیح سے نہیں بھیجتے یا جو کوئی رشوت نہ دے تو آگے اندراج نہیں کرتے ۔ جو اندراج کا دفتر قائم ہے پہلے وہاں عوام ذلیل و خوار ہوتے ہیں ہفتوں مہینوں دھکے کھانے، نالیوں میں گرنے اور عملے کی تذلیل برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔کئی بزرگ خواتین ہجوم کی بھیڑ میں دم گھٹنے سے بے ہوش ہو جاتی ہیں اور بالآخر یہ مرحلہ طے ہو جاتا ہے ۔اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ اعلان ہوتا ہے کہ احساس کفالت پروگرام کے پیسے ملرہے ہیں تو جوق در جوق قافلہ در قافلہ نواحی بستیوں، شہروں، دیہاتوں سے غربت زدہ بزرگ، حاملہ، بیمار ,مزدور خواتین کی ٹولیاں اس جگہ کا رخ کرتی ہیں جہاں پیسوں کی تقسیم کا پراسس جاری ہوتا ہے اور وہاں سب گیا کے مناظر ہوتے ہیں ۔موسم کی سرد و گرم سے نبٹنے کے ئے حکومت کی طرف سے کسی سایہ دار درخت یا پانی کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا ۔خواتین عملے سے رقم کا پتہ کرنے کیلئے بھیڑ کی صورت میں جمع ہو جاتی ہیں پھر وہ دھکم پیل ہوتی ہے کہ الاماں الحفیظ ۔اگلے دن خاتون نے وہاں پر ایک بچے کو جنم دے دیا بچہ وہیں پر دم توڑ گیا وہ خاتون محض14 ہزار کی امید میں آئی تھی اور اپنے جگر گوشے کی لاش کے ساتھ واپس گئی ۔یہ مقام لمحۂ فکریہ ہے وزیراعظم صاحب سے التماس ہے اس پروگرام کو مؤثر طریقے سے نافذ العمل کیا جائے ۔مستحق لوگوں کے بینک اکاؤنٹ بنائے جائیں ۔ ہر مستحق شہری کسی بھی بینک سے باعزت طریقے سے چیک کی صورت میں کیش کرا سکے تاکہ سادہ لوح اورخواتین کو لٹنے کا خطرہ نہ ہو اور نہ ہی عملہ ان سے رشوت وصول کر سکے۔عوام کی ذلالت کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے ۔