ابھی ہندوستان کو چین کے ہاتھوں شکست کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا ۔ ایک پاکستانی اخبار نویس ہندوستان مطالعاتی دورے پر پہنچے ۔ دورے کے اختتام پر اس کا ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ پنڈت نہرو کے دل میں شکست کا زخم ابھی تازہ تھا۔ ادھر پاکستانی چین کی فتح پر بہت شاداں دکھائی دے رہے تھے۔ نہرو نے اس اخبار نویس کے ذریعے پاکستانیوں کو پیغام بھجوایا ۔ ’واہگہ کے اُس پار بسنے والے میرے بھائیوں تک میرا یہ پیغام پہنچادو ۔ ہماری چین کی ہاتھوں شکست پر خوشیاں نہ منائیں۔ واہگہ کے دونوں اطراف رہنے والے بھائی بھائی ہیں۔ ان کا مرنا جینا ایک ہے ۔ جو کچھ واہگہ کے اِس پار ہوگا وہی واہگہ کے اُس پارہو کر رہے گا‘۔ کالم نگار سوچ رہا ہے کہ شادی بیاہ کی رسومات ، دیگر رسم و رواج ،فضول خرچی ، مذہبی شدت پسندی اور تواہم پرستی ، سب کچھ واقعی واہگہ کے دونوں اطراف ایک ساہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ سیاسی نظام اور سیاسی مزاج دونوں اطراف ایک سا کیوں نہیں ؟ ادھر قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں امیدوار پیدل ، چھوٹی گاڑیوں ، موٹر سائیکل یا رکشہ پر گھومتے پھرتے ووٹروں کیلئے قابل قبول کیوں نہیں ؟ کیا ہندوستان کے سیاسی نظام میں کسی ٹائون ڈویلپر کے برطانیہ میں ضبط کئے گئے اربوں پائونڈ ،ڈالر ، لا کر اسے ادب سے پیش کئے جا سکتے ہیں ؟ کیا وہاں کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے بیورو کریٹ کے خلاف اولڈ ایج بینیفٹ کا اربوں روپوںکے غبن کا مقدمہ عدالت سے واپس لیا جا سکتا ہے ؟ ہندوستان میں بوڑھے انّا ہزارے نے کرپشن کے خلاف احتجاج شروع کیا۔اسی تحریک سے اروند کجریوال برآمد ہوئے ۔ یہ بیورو کریٹ تھے ۔ اندرون شہر چھوٹے سے گھر میں رہنے والے یہ عام آدمی پارٹی کے خالق ہیں۔ پہلی مرتبہ یہ الیکشن میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرے ۔ کانگریس سے مل کر حکومت بنائی لیکن انہیں اس لولے لنگڑے اقتدار سے اصلاحات ممکن نظر نہ آئیںتو 49روز کے بعد اقتدار چھوڑ دیا۔ پھر اگلے الیکشن میں بھاری اکثریت سے جیتے اور حکومت بنائی ۔ انہوں نے بہت سی اصلاحات کی ہیں۔ دلّی کے یہ وزیر اعلیٰ اب بھی اپنے پرانے گھر میں عام آدمی کو آسانی سے دستیاب ہیں۔ ان کی پارٹی کے امیدوار بہت نچلے طبقے سے ہیں۔یہ فی گھر 200یونٹ بجلی مفت فراہم کر رہے ہیں۔فی گھر 400یونٹ تک بجلی کا بل آدھا ہے ۔ بہت حد تک معاشرہ کرپشن فری کر لیا گیا ہے ۔ سیاست کو بڑی گاڑی والوں کے چنگل سے نکال لیا گیا ہے۔ اسی موسم میں پاکستان سے بھی ایک درد مند نوجوان اٹھا ۔ یہ اسلام آباد سے ایک وکیل عدنان رندھاوا تھا ۔ یہ ریمنڈ ڈیوڈ کیس میں قومی غیرت کے ہاتھوں مجبورہو کر احتجاجاً فارن سروس چھوڑ آئے تھے ۔ پاکستان میں سپیریئر سول سروس کی نوکری چھوڑنا مذاق تھوڑی ہے ۔ انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ یہ سر پھرے نوجوان پہلے عمران خان کے ساتھ کام کرتے رہے۔انہیں تحریک انصاف پاکستان کا ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات مقرر کر دیا گیا۔ مگر یہ زیادہ دیر ان کے ساتھ نہ چل سکے۔انہوں نے اپنی عام آدمی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی ۔ چندبیکار ، بیروزگار سے نوجوان بھی میسر آگئے ۔ تھوڑی بہت رونق بھی بن گئی ۔ ان ابتدائی جذباتی دنوں میں انہیں بہادر جاوید ہاشمی بھی کم ہمت محسوس ہورہا تھا کہ یہ اپنی پارٹی نہیں بنا پائے۔ یہ بات انہوں نے خود کالم نگار کو بتائی ۔ کالم نگار نے عدنان رندھاوا کی رائے سے اختلاف کیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ کالم نگار کی رائے درست تھی۔’اک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی‘۔ لیکن جلد ہی عدنان رندھاوا کے سارے ’’چائو‘‘ پورے ہو گئے اور یہ ٹھنڈے ٹھا رسے ہو کربیٹھ گئے ۔ اگر جہاندیدہ پنڈت نہرو کے مطابق واہگہ کے اس پار جو ہوتا ہے وہ واہگہ کے اس پار ہو کر رہنا ہے تو پھر ادھر پاکستان میں عام آدمی پارٹی کیوں کامیاب نہیں ہو سکی ؟ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وہی جاگیردار ی کا خاتمہ نہ کرنا ۔قیام پاکستان کے فوراً بعد مسلم لیگ پر جاگیردار قابض ہو گئے تھے۔ آپ قرار داد مقاصد کو قرارداد ذاتی مقاصد قرا ر دے سکتے ہیں۔ درویش حسرت موہانی کی یہی رائے تھی کہ اگر قائد اعظم زندہ رہتے تو یہ قرارداد مقاصد کبھی پاس نہ ہو سکتی۔ پھر پاکستان میں جاگیراداری ختم کرنے کی بجائے نو آباد علاقوں میں نئے جاگیردار پیدا کئے گئے ۔ آج جاگیرداری کا خاتمہ پاکستان کی تینوں اہم سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے منشور میں شامل نہیں۔ اکیلا عابد حسن منٹو سپریم کورٹ میں اپنی رٹ کی پیروی کر رہا ہے ۔ ایک مرتبہ بھٹو بننے کے شوق میں سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے چند روز جاگیرداری ٹھاہ کا نعرہ لگایا۔ کالم نگار نے انہیں لکھا کہ اگر وہ اس مسئلے پر مخلص ہیں تو وہ سپریم کورٹ میں عابد منٹو کی رٹ میں عابد منٹو کے ساتھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔شاید انہیں جماعت اسلامی کا موقف سمجھا دیا گیا ہوگا۔لاہور یوم اقبالؒ کی ایک تقریب میں ڈاکٹر فتح محمد ملک نے انکشاف کیا تھا کہ جاگیرداری کے مسئلہ پر امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی اور امیر جماعت احمدیہ (مرزائی)ہم خیال ہیں۔ دونوں ہی جاگیرداری کے حق میں ہیں۔ دوسری وجہ ، روئیداد خاں اور جمشید مارکر نے بڑی محنت سے امریکی اور برطانوی سفارتخانے کی ڈاک اکٹھی کر کے شائع کی ۔ قیوم نظامی نے ان میں سے جستہ جستہ کا اردو ترجمہ کر کے’’ خفیہ پیپرز‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کر دی ۔ اسے پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائیگا کہ ایک نادیدہ قوت ہی ہمارا سارا سیاسی نظام چلا رہی ہے ۔ ہمیں توہین آمیز طریقے سے نچایا جاتا رہا ہے اور آج بھی نچایا جا رہا ہے ۔ عدیم ہاشمی نے یونہی تونہیں کہہ دیا تھا :
بوزنے ہیں تو ملے ہم کو ہمارا جنگل
آدمی ہیں تو مداری سے چھڑایا جائے
پس تحریر: گوجرانوالہ ضلع کچہری میں ایک ہلکایا کتا 18آدمیوں کو کاٹ چکا ہے ۔ ابھی تک ڈپٹی کمشنر سمیت سارے سرکاری افسران اس سے محفوظ ہیں۔ کیا یہ کسی سرکاری افسر کو کاٹنے کے بعد ہی سزا کا مستحق گردانا جائیگا؟
٭…٭…٭
مداری سے چھڑایا جائے
Mar 21, 2022