اسلامی تعاون تنظیم کی موجودہ دور میں اہمیت

پاکستان کی 75 ویں سالگرہ اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی بڑی تعداد شرکت کرے گی اور 23 مارچ کی نیشنل پریڈ کے موقع پر تمام ممبران اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ پاکستانی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ عملی قابلیت کو ملاحظہ کرینگے۔ اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کی پاکستان میں آمد کا مقصد 22 اور 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونیوالے او آئی سی کے 48 ویں غیر معمولی اجلاس میں شرکت ہے۔ اس سے قبل او آئی سی کا سینتالیسواں اجلاس بھی گزشتہ سال افغانستان کے ایشو پر اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔ او آئی سی کے موجودہ اجلاس میں افغانستان کے حوالے سے اب تک کی گئی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی غور ہو گا۔ اس اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بھیانک اثرات پر بھی بات چیت کی جائیگی۔ اجلاس میں اسلامی ممالک کی ایک سو سے زائد قراردادیں متوقع ہیں جن میں سلگتے کشمیر میں جاری انسانی مظالم اسلامی ممالک کے سامنے رکھے جائینگے۔ پاکستان نے او آئی سی کے اڑتالیسویں اجلاس کے موقع پر ایک سرکاری ترانہ بھی جاری کیا ہے۔
   او آئی سی کا قیام 21 اگست 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں ہوا تھا۔ ابتدا میں 24 اسلامی ملک اس میں شامل ہوئے اب اسکے ممبران اسلامی ممالک کی تعداد 54 کے قریب ہے۔ 1969ء میں ایک آسٹریلوی کرسچن ڈینس مائیکل نے یروشلم کے اندر مسجد اقصی میں رکھے صلاح الدین ایوبی کے آٹھ سو سالہ پْرانے منبر کو آگ لگا دی تھی۔ اسلامی دنیا نے اس پر شدید ردعمل دیا جس کے باعث او آئی سی کا قیام وجود میں آیا۔ اور 25 ستمبر 1969ء کو او آئی سی نے ایک قرارداد پاس کی کہ تمام ممبران اسلامی ممالک آپس میں تعلیمی ، اقتصادی ، سائنسی ، ثقافتی اور روحانی شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کرنے کیلئے مشورے کرینگے۔ اس تنظیم کا پْرانا نام تنظیم موتمر اسلامی تھا 26 جون 2011 میں قازقستان میں ہونیوالے تنظیم کے 28 ویں وزرائے خارجہ اجلاس میں اس کا موجودہ نام تنظیم تعاون اسلامی رکھا گیا جسے او آئی سی کہا جاتا ہے۔ اب او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہے اور 2014ء سے اسکے دسویں سیکرٹری جنرل سعودی عرب کے ایاد بن امین مدنی ہیں ان سے قبل 9 دیگر سیکرٹری جنرل کا تعلق بھی مختلف اسلامی ممالک سے تھا او آئی سی کی چھ قائمہ کمیٹیاں آٹھ ذیلی بازو اور آٹھ ملحقہ ادارے ہیں۔
   دنیا میں اسی طرز کی دیگر ممالک کی اپنی تنظیمیں بھی موجود ہیں جن میں یورپی اتحاد ، یورپی یونین ، ورلڈ بنک ، اقوام متحدہ اور نیٹو شامل ہیں۔ یورپی یونین اور یورپی اتحاد معاشی ، مواصلاتی اور کرنسی نظام کے تحت ہے جس سے برطانیہ اب بریگزٹ کے ذریعے نکل چکا ہے۔ ورلڈ بنک کا معاشی استحکام کے دفاع کیلئے فنڈنگ نظام ہے۔ اقوام متحدہ سیاسی مسائل کے حل کا فورم ہے جس میں متعدد اسلامی ملک بھی شامل ہیں جبکہ نیٹو ایک دفاعی نظام ہے جسے روس کے خلاف دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی ملکوں نے قائم کیا تھا اسلامی ملک ترکی بھی نیٹو کا ممبر ہے۔ نیٹو کے کسی ایک ملک پر حملہ تمام ممبر ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔
اوآئی سی یورپ ، افریقہ اور ایشیأ کے تمام مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے جس کا دوسرا بڑا اسلامی سربراہی اجلاس 1974ء کو پاکستان میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے منعقد کیا تھا جس میں متحارب اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے بھی پہلی بار شرکت کی تھی اس اجلاس کے بعد عرب ممالک سے پٹرول کی درآمد پر شرائط لاگو ہونے سے امریکہ میں پٹرول کی قلت پیدا ہونی شروع ہو گئی تھی جسکے بعد او آئی سی کے چار بڑے لیڈر مختلف ادوار میں غیر طبعی موت سے ہمکنار ہو گئے جن میں شاہ فیصل ، ذوالفقار علی بھٹو ، شیخ مجیب الرحمان اور کرنل قذافی شامل ہیں۔ ان عالمی لیڈروں کی وفات کے بعد او آئی سی بظاہر ایک غیر فعال تنظیم بن کر رہ گئی تھی جس کا باقاعدہ زوال عرب اسرائیل جنگ اور ایران ، عراق دس  سالہ جنگ کے دوران ہوا عراق ، ایران جنگ کے خاتمہ کے بعد او آئی سی کی طرف سے مصر کے صدر انور سادات اور اْردن کے شاہ حسین بغداد کے صدارتی محل میں عراقی صدر صدام حسین سے ملنے گئے کیونکہ صدام حسین مطالبہ کر رہے تھے کہ عراق ایران جنگ کے دوران کویت نے ان کا پٹرول نکال کر عالمی منڈی میں فروخت کیا ہے وہ اسکی قیمت ادا کرے۔ او آئی سی کے ممبران دونوں ممالک کے انور سادات اور شاہ حسین نے عراقی صدر صدام حسین کو بتایا کہ کویت کا وہ سارا پیسہ امریکی بینکوں میں موجود ہے جسے فوری نہیں نکالا جا سکتا کیونکہ اس سے امریکی معیشت کو جھٹکا لگ جائے گا لیکن برہم صدام حسین نے انکے سامنے اپنے جوتے اتار کر میز پر رکھ دئیے اور کہا کہ اب یہ عراقی پیسہ میرے یہ جوتے کویت سے وصول کریں گے پھر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا اور امریکہ نے کیماوی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر عراق پر حملہ کر دیا۔54 اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی آج تک کوئی مشترکہ دفاعی نظام قائم نہیں کر سکی اسی لیے فلسطین ، عراق ، شام ، افغانستان اور کشمیر میں مسلمانوں پر جنگیں مسلط کر کے انسانی مظالم ڈھائے جاتے رہے جن کا کوئی مؤثر سدباب ممکن نہ ہو سکا حتی کہ 1972ء میں مسئلہ فلسطین پر وزرائے خارجہ اجلاس میں مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستوں کے قیام کی شکل میں دیکھا گیا۔ دو بڑی عالمی طاقتوں روس اور امریکہ کی سرد جنگ کے دوران ہمیشہ او آئی سی فعال ہوتی رہی ہے بعض ادوار میں او آئی سی کو امریکی طفیلی تنظیم بھی کہا جاتا رہا ہے لیکن اس کا دوسرا بڑا سربراہی اجلاس امریکی خواہش کے برعکس پاکستان میں منعقد ہوا تھا تب امریکہ چاہتا تھا کہ وہ اجلاس ایران میں ہو امریکی خواہش کی سعودی عرب کے شاہ فیصل نے مخالفت کی تھی تب امریکہ ، روس دشمنی میں ایران کا حمایتی تھا۔ دنیا میں معاشی تبدیلیوں کے اثرات کے تحت موجودہ ورلڈ آرڈر کی بدلتی صورتحال سے اب مسلم ممالک کی یہ اتحادی تنظیم او آئی سی ایک بار پھر اہمیت کی حامل ہوتی جا رہی ہے جس میں پاکستان کا کردار کل بھی مسلم اْمہ کے لیڈر کے طور پر تھا اور آج بھی پاکستان کو مسلم اْمہ کا لیڈر ہی تصور کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن