پرورش ِ لوح و قلم

Mar 21, 2022

پاکستان میں دانشوروں،قلمکاروں اور فنکاروں کی قدرافزائی کیلئے حکومتی سطح پر حقیقی معنوںمیںکوئی بااختیار ادارہ نہیں اسی طرح شاعروں،ادیبوں اور صحافیوں کی فلاح وبہبود کیلئے ابھی تک جوکچھ ہوا وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنرل ایوب کے عہد اقتدار میں رائٹرز گلڈوجود میں آئی، جمیل الدین عالی ،قدرت اللہ شہاب اور اس قبیل کے لوگوں نے حکومت کے اشارہ ابرو پر اس تنظیم کو مضبوط بنانے میں موثرکردار ادا کیا۔ پس پردہ اہل قلم سے زیادہ حکومت کے مفادات پیش نظر رہے۔ چند گنے چنے ادیبوںکوجنرل انصاری چیئرمین ایل ڈی اے نے کچھ مراعات کے ساتھ پلاٹ دیئے اسی طرح رائٹرگلڈکے فنڈزکا استعمال اپنے من پسند ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت پر صرف ہوئے، مجلس ادب اکیڈمی ادبیات اور اقبال اکیڈمی نے جتنا کام کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے، کتابیں شائع ہوئیں مگرخریدار پیدا نہ ہوئے، اعزازی نسخے لوگوں تک پہنچے یا مختلف کتب خانوںکی الماریوںمیں بند ہیں۔ بعض نایاب کتابوں،قلمی نسخوں اور کلاسیکی ادب کو نیا لباس پہنایاگیا مگر تحقیق کے رجحان میںکمی آجانے کے سبب ان کا بھی وہی حشر ہوا کہ انہیں قاری میسر نہ آیا۔
قاری نہ ملا اور ادھر وقت کی دیمک
چٹ کرگئی ایسا بھی زمانے میں ادب تھا
پاکستان کے مرکزی شہروں کے علاوہ مضافات میں شعر وادب سے شغف قابل تعریف ہے، وہ لوگ بڑے شہروں کے نامور ادیبوںسے کہیں زیادہ فعال اور متحرک نظرآتے ہیںمگر انکی نارسائی اور قناعت پسندی انکی راہ میں سنگ گراں بنی ہوئی ہے۔ یہ لوگ مختلف اصناف نظم ونثر میں قلم کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ ان کا تخلیقی سرمایہ اشاعت کے بغیرسرہانے دھرا رہتاہے۔ اگر حکومت یا اسکے قائم کردہ ادارے ادیبوںسے ہمدردی رکھتے ہیں تو انہیں کسی ضابطے کی پابندی کرنی پڑیگی۔ ایک ایسے ریوالونگ فنڈ بنا ڈالنی چاہئے جوخرچ ہونے کے باوجود بڑھتا رہے۔ مثلاً ہر سطح کے اہل قلم کی تخلیقات کی اشاعت کا اہتمام کیاجائے اور جس شاعر یا ناول نگاریا افسانہ نویس کا سرمایہ دقیع ہو اور وہ یہ ذمہ داری قبول کرے کہ وہ دو سو کتابیں اپنے احباب کے ہاتھ فروخت کرسکتاہے تو اسے یہ سہولت ملنی چاہیے کہ اشاعت کا مرحلہ بخیروخوبی طے کرلے۔ ہمارے ادبی یا علمی اداروں کے سربراہ لاکھوں روپے اشاعتی اداروںکو دے دلاکر بیٹھ جاتے ہیں اگریہ کام وہ خود انجام دیں اور حکومت کاغذ فراہم کرنے کا اہتمام کرے تو سب کام آسان ہے فی زمانہ کمپیوٹرنے تمام مشکلات پر قابوپالیاہے جوکام مہینوں میں انجام پاتا رہا وہ چند دنوںمیںمکمل ہوجاتاہے، کسی قلمکار کی حوصلہ افزائی کرنا کاروبار کو نقصان پہنچانے کے مترادف خیال کرتے ہیںان میں چند پبلشرزایسے ہونگے جو شاعری چھاپنے پر برضا وررغبت تیار ہوں۔ اردو بازار میں ہروقت شوروغل برپا رہتاہے، کائونٹر پر بیٹھے ہوئے صرف نوٹ گننے میںمصروف رہتے ہیں۔
ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ صحافیوں کا احوال بھی کچھ مختلف نہیں، کالم نگاروں کی تحریروںسے دل ودماغ روشن ہوتے ہیں۔ بیشترصحافی اپنے قدموںپرکھڑے ہیںمگرآگے بڑھنے کا راستہ دکھائی نہیں دیتا، کرکٹ کے کھیل کی طرح ڈے اینڈنائٹ قلم سے ملبے کا کام لے رہے ہیںمگر سکورمیں اضافہ نہیںہوتا۔ کبھی قلم شمع کی لوکی طرح انکے ہاتھوںکی انگلیوںمیں تھرتھراتاہے اورکبھی وہ خودجھرجھری لے کر قلم کی نوک کاغذ کے سفید مساموںمیں پیوست کرکے بیٹھ جاتے ہیں اجزائے خیال کے اوراق منتشر اور جرات تحریرمفقود ہوجاتی ہے ،روشن ضمیر صحافی حرف حق لکھنے سے باز نہیں آتا لیکن اسکی تحریر کو کون پڑھتاہے۔ اتنا کچھ لکھنے کے باوجود کوئی انقلاب برپانہ ہوا ہو۔ رشوت اور سفارش کا قلع قمع نہ ہوا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہرگوشے میں جہاں کوئی لکھنے والاموجود ہے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر رائٹرز گلڈ،حلقہ ارباب ذوق یا اس قبیل کی دوسری فعال تنظیمیں موجود ہیں جو پاکستانی ادیبوں کو آپس میں ملنے اور باہمی مشاورت کے مواقع فراہم کرتی ہیں تو اب حکومت کا فرض ہے کہ ایسی تنظیموں سے کام لے۔ انکی تحقیقات کی اشاعت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔ پبلشروں اور ادیبوں کے درمیان عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم معاہدوںپرعملدرآمدکویقینی بنائے تنگ دست لکھاریوں کومعاشی ناآسودگی سے رہائی دلانے کا اہتمام کرے۔ ہروہ رعایت جوکسی صورت میں کسی ادارے کے افراد کیلئے ضروری سمجھی گئی شاعروں اور ادیبوں کو ملنی چاہیے، مثلاً ریل یا ہوائی جہازکا سفر خرچ نصف کردیاجائے، ڈاک پر خصوصی کم قیمت ٹکٹ کا اہتمام کیاجائے۔ انکے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروںمیں داخلہ اورجملہ مراعات کویقینی بنایاجائے۔ ہرسرکاری سکیم میں زمین کی خرید اورمکان کی تعمیرمیںمددکی جائے یہ اوراس نوعیت کے مطالبات کا پورا کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح افواج پاکستان کیلئے کھلے دل سے بہت سی مراعات دی گئی ہیں،اگر افواج سرحدوں کی حفاظت پرمامورہیں تو اہل قلم اس ملک کی نظریاتی، ثقافتی اور علمی سرحدوں پر منڈلانے والاخطروں کیخلاف نبردآزماہیں۔ پرورش لوح وقلم کرنا معاشرے کوصحت مند بنیادوںپراستوارکرناہے، ادیبوں کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا سنگدلی ہے۔ یہی وہ آئینہ صفت افراد انسانی ہیں جو دنیا طلبی کی بجائے حکایت خون چکاں لکھتے ہیں اور حرف حق بلند رکھنے کی خاطراپنا قلم خون دل میں ڈبونا چاہتے ہیں ۔

مزیدخبریں