جیسی رعایا ویسے حکمران   

Mar 21, 2022

کچھ باتیں بناتا ہوں فیصلہ آپ خودکریں کہ کیا ہم   انسان بھی ہیں؟ جانوروں میں دودھ بڑھانے کیلئے ٹیکے لگا نا ، گوشت کو پانی دے کر وزن بڑھانا۔ ریسٹورنٹ میں گدھے اور کتوں کا گوشت پکانا ، سرخ مرچوں  میںپسی ہوئی اینٹیں ملانا، شادی بیاہ میں مردہ مرغیاں شامل کرنا، منرل واٹر کے نام پر عام پانی بھرنا، دو نمبر ادوایات اصلی پیکنک میں فروخت کرنا، چائے کی پتی میں چنے کا چھلکا ،پیٹرول میں مٹی کا تیل مکس کرنا،کیمکل ملا دودھ فروخت کرنا ، شیرہ بنا کر شہد بنانا ، ناپ تول میں کمی ،  سفید جھوٹ بولنا،گالیاں دینا ،بے گناہ لوگوں کو جیلوں میں رکھنا، بے تکے فیصلے کرانا  ۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد توقع کرنا کہ اﷲ ہمیں جنت دے گا۔ کیا یہ دعا ہمیں زیب دیتی ہے   یہ سارے کام جہنم میں جانے والے ہیں ’’ جیسے عوام ویسے حکمران ‘‘کاش ہمارے امام مسجد ہر جمعہ کو حقوق العباد  کے بارے میں بتایا کریں ۔ہم  روز گناہ کرتے او روز عبادت بھی کرتے ہیں  تاکہ روز کا روز حساب برابر رہے ۔ ایسا سوچنا ہماری غلط فہمی ہے ۔ اس غلط فہمی کو مولانا صاحبان ہی دور کر سکتے ہیں ۔ ہمیں انسان بنا سکتے ہیں ۔صحیح معنوں میں مسلمان بنا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر سیاسی جماعتوں کے   لیڈرز  الیکشن جیتنے کیلئے شہریوںکو   سبز باغ دکھانے بند کر دیں   تو سوسائٹی میں بہتری آ سکتی ہے  ۔ مگر جب یہ لیڈران اقتدار میں آتے ہیں تو سب بھول جاتے ہیں ۔ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ   اب ہم سب الیکٹرانک دور سے گزر رہے ہیں ۔کل جو کچھ کہتے ہیں آج وہ سامنے آجاتا ہے ۔ پھر بھی  شرم محسوس نہیں کرتے۔ جیسے بہت سے لیڈران ماضی میں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں  جانے والوں کو ان کا حق سمجھا کرتے تھے آج وہی  انہیں  لوٹا کہہ رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ جھنڈے والی گاڑی کیلئے  کرتے ہیں۔ دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور اپنے لیڈر کو   دودھ کا  دھلا کہتے ہیں  ۔نہ انہیں اپنی عزت کا خیال اورنہ دوسروں کی عزت کا خیال ۔یہ خامیوں وہاں پائی جاتی ہیں جہاں قانون نہ ہو جہاں لوگ پیسے کو سب کچھ ہی سمجھتے ہوں ، جہاں لوگوں کا دماغ خالی ہو ۔ ابھی جو کچھ سیاسی ملکی سطح پر دیکھا جا رہاہے ۔یہ اسی کا نتیجہ ہے اگر ملک میں قانون ہوتا اور قانون کے ماننے والے ہوتے تو عدم اعتماد آنے پر اتنا  ہنگامہ بر پا نہ کرتے  ۔ یاد کریں  جب یہ دھرنے پر تھے  تو چینی صدر کا پاکستان کا وزٹ تھا ۔ کہا گیا تھا کہ  مہمان کوگزرنے کا رستہ دیں مگر یہ نہیں مانے تھے  ۔ اب او آئی سی کا اجلاس کی وجہ سے  پی ڈی ایم نے  دھرنے کا پروگرام کینسل کر دیاہے کہا  ملک پہلے سیاست بعد میں کریں گے ۔بابا کرمو کو کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹی کس طرح بنتی ہیں ۔حکمران کس طرح اقتدار میں آتے ہیں ۔ کون انہیں لاتا ہے  کس کے کہنے پر وہ  لائے جاتے ہیں ۔ اب سب  بے نقاب  ہیں مگر پھر  کئی لیڈر ڈرامے سے باز نہیں آتے ۔زیادہ دور نہیں ماضی دیکھ لیں  ۔ آج کے حکمران کس سیڑھی سے اقتدار میں آئے ۔ وہ دن یاد کریں جب ایک ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم میں انہوں نے ساتھ دیا تھا ۔  اس ڈیکٹیٹٹر نے  پوچھا  تھا! الیکشن میں کتنی سیٹیں دی جائیں ۔کہا  ایک سو ؟جواب  کیا ملا سب جانتے ہیں  ۔ کچھ عرصے بعد ادھر ادھر کے انکے اتحادی  بن گئے  ۔  اقتدار سے پہلے کہا کرتے تھے  مر جائوں گا بھیک نہیں مانگیں گے ۔ یو ٹرن نہ لیتے رہے ۔ اب ان کی پارٹی ممبران کہہ رہے ہیں ہم  انہیں  اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے ۔اب یہ منحرفین کیلئے قانونی راستے تلاش کر رہے ہیں  ۔کبھی  خود گوگو کے نعرے لگا کر کہا کرتے تھے اگر ان میں حمیت ہوتی تو یہ خود ہی گھر چلے جاتے ۔ اب عوام ان کے خلاف گو گو کے نعرے لگا رہے ہیں ۔جو ان سے مخلص  تھے وہ انہیں مشور ہ دیتے ہیں کہ کسی کا نام نہ بگاڑیں ۔یہ  انہیں بتاتے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے  ان کی جماعت میں شامل ہونے والے کہا کرتے تھے ہم نے ان کی  وکٹ گرا دی ہے   اور  اگر کوئی ان کی جماعت چھوڑ جائے تو یہ  اسے ہارس ٹریڈنگ کہتے ہیں ۔یہ سب کچھ ان کا اپنا کیا دھرا ہے ۔اب ان کے اپنے کہہ رہے ہیں ہارن دے کر پاس کرو یا برداشت کرو۔  ساڑھے تین سال سے یہ اقتدار میں  ہیں مگرابھی تک انہیں یقین  ہی نہیں  کہہ اقتدار میں ہیں  ۔سوائے عوام پر مہنگائی بم برسنانے  اور اپنے مخالفین کو القاب سے نوازنے کے کچھ نہیں کر رہے  جو مخلص ساتھی تھے  انہیں دور کرتے رہے ۔ جہانگیرترین ،علیم خان اور محسن بیگ جیسوں  کو خوار کررہے ہیں ۔ یہ بتائیں  کیا اس عرصے میں کرپشن  مافیا ختم کر دی  ۔ کیا پولیس کا نظام ٹھیک کر دیا ۔ کیا عام شہری کو تحفظ و انصاف مل رہا ہے۔ کیا خاندانی و مورثی سیاست کا خاتمہ ہو چکا  ان کے پاس جواب دینے کو کچھ نہیں ۔ ایک درخت پر فاختہ اور گدھ  اکھٹے بیٹھے تھے ۔ فاختہ نے شکاری کو دور سے آتے دیکھ کر گدھ سے کہا آئو  اڑ جا تے  ہیں۔ گدھ نے کہا میں تو حرام ہوں مجھے یہ کیوں مارے گا ؟تم اپنی فکر کرو۔ شکاری نے گدھ کو نشانہ بنایا ۔گدھ زخمی ہو کر گرا ۔ فاختہ قریب آئی اور کہا  میں نہ کہتی تھی کہ اڑ جائیں ،اب یہاں کھانے کو حرام حلال نہیں  موٹا مال دیکھا جاتا ہے۔لگتا ہے فاختہ نے یہ ہمیں سمجھانے کیلئے کی  تھی  ۔ اقتدار میں  آنے والوں سے اتنی سے گزارش ہے کہ عوام کا خیال رکھا کریں ۔یہ وطن ہمارا ہے اسے ہم سب نے بہتر کرنا ہے  اب مزید گنجائش نشتہ… احتیاط کی اشد ضرورت ہے۔ 

مزیدخبریں