فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ سپاہی، چور کے پیچھے کھڑا نہیں ہوتا، فواد چوہدری

 اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت اورفوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چا ہتی ہے،نامہ کے بعد اب سپریم کورٹ آنے کا موقع ملا ہے، اس وقت بھی چوروں اور لوٹیروں کے خلاف جدوجہد کی جارہی تھی، اب بھی یہی جدوجہد کی جارہی ہے، آرٹیکل 163 اے پاکستان کے آئین کا ایک اہم حصہ ہے، ہم نے اس کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس طرح لوگوں نے اپنے ضمیر فروش کیے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں، ہم سپریم کورٹ سے پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں ضمیر فروشی اور لوٹا کریسی کی اجازت ہے یا نہیں، یہ پہلا موقع نہیں جب عمران خان اور ان کی حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے،وفاقی وزیر اطلاعات کی بابر اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس 

 وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن پی ٹی آئی حکومت اورفوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا چا ہتی ہے ، پاکستان کی فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے ان کے ساتھ نہیں ہے، پانامہ کے بعد اب سپریم کورٹ آنے کا موقع ملا ہے، اس وقت بھی چوروں اور لوٹیروں کے خلاف جدوجہد کی جارہی تھی، اب بھی یہی جدوجہد کی جارہی ہے، آرٹیکل 163 اے پاکستان کے آئین کا ایک اہم حصہ ہے، ہم نے اس کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس طرح لوگوں نے اپنے ضمیر فروش کیے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں، ہم سپریم کورٹ سے پوچھ رہے ہیں کہ پاکستان میں ضمیر فروشی اور لوٹا کریسی کی اجازت ہے یا نہیں، یہ پہلا موقع نہیں جب عمران خان اور ان کی حکومت کو چیلنجز کا سامنا ہے ۔ پیر کواسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انشاءاللہ یہ سلسلہ منطقی انجام تک پہنچے گا جوآج شروع ہوا ۔ ہمارے سادے ریفرنس پر بات ہوئی اور آرٹیکل 63اے آئین کا بنیادی حصہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس آئین کی بناءپر عدالت سے تشریح مانگی کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں لوگوں کے ضمیر کو خریداگیا اور لوٹا کریسی کو ریگولرائز کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستان کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی وہ آپ کے سامنے ہے ،آرٹیکل 63اے کے تحت تشریح کرکے بتایاجائے کہ کیا پاکستان کے آئین میں ضمیر فروشی کی اجازت ہے ؟لوٹا کریسی اور ووٹ بیچنے کی اجازت ہے ۔بتائیںیہ لوگوںکے سوال ہیں۔سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا اس سے لوگوںکو آگاہ کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شبہ ہی نہیںکہ جس طرح عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت مافیاز کےخلاف اقدامات اٹھانے سے پہلے دن سے یہ واضح ہوگیاتھاکہ یہاں سازشیں ہوں گی اوربڑے ڈاکوو¿ںکو اکھاڑناایک بڑا چیلنج ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اس طرح چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے بلکہ انہوں نے ہمیشہ زندگیوں میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا اور انہیں بھی انجام تک ہی پہنچاکر دم لیںگے ۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جہاں تک میںنے سنا کہ اپوزیشن کو تکلیف ہے کہ 22مارچ کو اجلاس نہیں ہوا وہ 25مارچ کو ہورہا ہے ،تین دنوں میںآپ پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے ، اپوزیشن نے او آئی سی کے جو کمپین کی وہ انڈیاور اسرائیل نے بھی نہیںکی،شرم سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ او آئی سی کے خلاف بات کرکے کہتے ہیں کہ او آئی سی بلاکے دکھاو¿ پتہ چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے سیاسی کریز میں اسلام کے نام پر ووٹ تو لئے لیکن اسلام کیلئے کیا کیا ، وزیراعظم عمران خان واحد حکمران ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد پیش کی اور ناموس رسالت کے نام پر پہرہ دیا اور فلاحی ریاست کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے ، مولویوںنے دین فروشی کے علاوہ کیا کیا ، میں اپوزیشن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ او آئی سی کانفرنس کے بعد اپنی عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے تو کیا قیامت آپ پر آنی تھی لیکن نہیں تمام کوششیں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی نظر آرہی ہیں اتنی کوششیں بھارت اور اسرائیل نے بھی او آئی سی کانفرنس کے خلاف نہیںجو انہوں نے کی، اس کے باوجود عمران خان ڈٹ کر کھڑے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے منحرف اراکین کو سات دن کا نوٹس دے کر واپس آنے کو کہا ہے اگر نہیں آتے تو ساری عمر کیلئے نااہل قراردیاجائےگا ،آج وہ کرتوتوںکی وجہ سے اپنے بچوںکو منہ دکھانے کے قابل نہیںرہے ۔ ان کے بھائیوںکی مجھے کالز آرہی ہیں،وہ ان کی حرکات پر شرمندہ ہیں کل بھی وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ واپس آجائیں اس میں آپ کیلئے بہتری ہے آج صبح سپیکر قومی اسمبلی پر حملہ کیا گیا، اگرسپیکر آپ کی باتیںمانیںتو بہت اچھا ہے ۔ آپ نے تین دن کیلئے او آئی سی کانفرنس کیلئے ہال قومی اسمبلی کی قرارداد کے مطابق دیا ہے ،سپیکر قومی اسمبلی کی قرار داد پر عمل کرنے کا پابند ہے، اب آپ پر سپیکر کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کررہے ہیں ، آج صبح فوج کے اوپر کمپین چلانے پر ن لیگ کا میڈیا ملوث ہے ، یہ ان کی مہم ہے ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف اور فوج میں تفرقہ پھیلائیں گے ،ہم ن لیگ نہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر فوج کے خلاف بغاوت کریں اور سازشیں کریں ۔ پاکستانی فوج اور تحریک انصاف کی جماعت ایک دوسرے کا مجموعہ ہے ،پاک فوج حکومت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوں گی یہ آپ خود دیکھ لیں کبھی چور اور سپاہی ساتھ چل سکتے ہیں ، یہ ہمارے چوروںکے ساتھ نہیںملنا،انہیںاپنے کردار کو بدلنے کی ضرورت ہے ، یہ لوگ سمجھتے ہیںکہ جس طرح چوروں اور ڈاکوو¿ںنے اپنی سلطنت کھڑی کی اور خوا ہش کی کہ عوام ان کے پیچھے کھڑی ہوگی تو یہ ان کے غلط فہمی ہے کوئی ان کے پیچھے کھڑانہیں ہوگا اس لڑائی میں فتح حق اور سچ کی ہوگی ۔اس موقع پر ڈاکٹر بابراعوان نے کہا کہ سپیکر کے 25تاریخ کے اجلاس پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس آرٹیکل کا نکالیںاور پڑھیں،اس آئین میں لکھا ہے کہ اگر کسی جگہ قومی اسمبلی میںایکٹ کرنے کا وقت مقرر ہے اور اس عرصہ کے دوران وہ ایکٹ نہیںہوپاتا اس بنا ءپر نہ اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے یہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ غیر قانونی کا م ہوا ہے تاہم سپیکر قومی اسمبلی نے آئین کے مطابق 25تاریخ منتخب کی ،سب لوگ جانتے ہیں کہ موش کب ہے 25تاریخ کی موش کیلئے ایجنڈ ے پر آنا ضروری ہے لیکن انہیں موشن کیلئے قرارداد پر لینی پڑے گی ، بزنس رول کے شیڈول 37کے مطابق اس کے بعد قرارداد ڈبیٹ ہوگی ، اپوزیشن جو قرارداد میں اپنا نقطہ نظر لے کر آئی ہے ہم بھی دیںگے جبکہ حکومت پاکستان کے اتحادی اپنانقطہ دیں گے ۔ کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ جب تک ووٹ نہیںڈالا جائے گا نااہل نہیںکیا جاسکتا، اچھی بات ہے وکلا محاذ کے مقدمے میںسپریم کورٹ آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 63اے کا تعارف کرایا اس کے مطابق جو شخص پارٹی کے سربراہ کو فالو نہیں کر ے گا ا سے نااہل قرار دیاجائے گا۔ انہوں نے کہا ابھی جو تاریخ طے کی گئی اس پر ساری پارٹیوں نے اعتراض کیا کہ ہم یہ اجلاس نہیں ہونے دیں گے،پہلے یہ زہر اگلتے ہیں پھر انہیں اسی زہر کو چاٹنا پڑ جاتا ہے۔ کیا سپیکر کے پاس اختیار ہے کہ جب ووٹنگ ہورہی ہو اور ووٹ باقاعدہ لکھ کر پرچی ملے تو کیا اسے ٹینڈر کیا جاسکتا ہے یا اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے وہ اس پر بحث کررہے ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ وہ وکلاءمحاذ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا حکم نامہ پڑھیں اور آرٹیکل 63Aکی وہ لائن پڑھیں۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا وہ شخص شکست کھائے گا وہ اس کی تاحیات اناہلی ہوگی یا پھر اس پر کوئی وقت مقرر ہے۔ اس فیصلے میں بلوچستان کا 2018کا سمیع اﷲ کیس میں میں وکیل تھا اس فیصلے میں جہانگیر اور نواز شریف نااہل ہوگئے تھے۔ اس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 62/1Fکا تعارف کیا اور اس میں کہا گیا کہ اگر کسی جگہ عدالت کا اعلان ہو کیا یہ صادق اور امین نہیں ہیں تو اسے تاحیات نااہل کیا جائے گا۔ اس حکم نامے کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے چیلنج کیا۔ اس موقع پر حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان اس وقت ڈیفائنی موومنٹ سے گزر رہا ہے پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ کیا پرانے پاکستان کی کرپشن ‘ ضمیر فروشی‘ ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی واپس پاکستان کو دھکیل رہی ہے یا پھر پاکستان کے اراکین صاف ستھری سیاست کی طرف جارہے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ فلور کراسنگ کا قانون انہی جماعتوں نے پاس کیا تھا۔ 

ای پیپر دی نیشن