ایک عدالتی پیشی کا قصہ 


پاکستان کے ضابطہ فوجداری کے مطابق اگر کوئی ملزم کسی بھی مقدمہ میں عدالت میں با وجود طلبی کے پیش نہیں ہوتا تو عدالت اسے اشتہاری بھی قرار دے سکتی ہے اور اگر وہ ملک میں موجود ہوتے ہوئے بھی عدالت آنے سے گریز کرے تو اس کی گرفتاری کے لیے نا قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کر سکتی ہے ۔ اس وارنٹ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ملزم کی عدالت میں حاضری یقینی بنائی جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر بھی ایک مقدمہ نہیںبلکہ لا تعداد مقدمات بنے ہوئے ہیں ، اس سے کسی کو انکار نہیںکہ ہمارے کلچر میں ایف آئی آر اور جعلی مقدمات اور الزامات کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ،کبھی کرپشن کے مقدمات کبھی دہشت گردی کے مقدمات یہاںتک کہ توہین مذ ہب کے جھوٹے الزامات بھی اپنے پس پردہ مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس ہر سطح پر موضوع سخن رہا۔ اس کیس میں شکایت کنندہ ضلعی الیکشن کمیشن ہے جن کا کہنا ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ کیس سے پیسے دے کر خریدنے والے تحائف اپنے اثاثہ جات میں ظاہر نہیں کیے اس لیے انکے خلاف ضابطہ فوجداری کی کاروائی ہو گی،اسلام ٓباد کے ایک ایڈیشنل سیشنز جج یہ مقدمہ سن رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ توشہ خانہ کی گزشتہ بیس سال کے تفصیل سامنے آ ٓ چکی ہے غیر ملکی دوروں پر کسی بھی حکمران یا وفد میںشامل کسی ایک شخص کو بھی تحفہ ملا تو اس کی تخمینہ قیمت اور اس کے لیے ادا شدہ رعایتی قیمت درج ہے۔ چار سو چھیالیس صفحات پر مشتمل یہ بیس سالہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ سرکاری دوروں پر جانے والے ہر حکمران اور انکے طائفے میںشامل ہر فرد نے بہتی گنگا میںہاتھ دھوئے ، اسی لیے اب صرف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کا مقدمہ بنانا شفافیت کے اصولوں پر ایک سوالیہ نشان ہے، جہاں عمران خان کا ماننا ہے کہ انہوں نے یہ تحائف مروجہ قوانین و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر حاصل کیے وہیں یہ الزام کے انہوں نے یہ تحائف اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے،ہمیں اس مقدمے کی یاد دلا دیتا ہے جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو صرف اس لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے اثاثوں میںوہ تنخواہ درج نہیںکی تھی جو وہ اپنے بیٹے سے لے سکتے تھے۔
 اثاثے ظاہر کرنا ہر شہری کے لیے ایک قانونی تقاضا ہے لیکن اگر آپ ان اثاثوں کی تفصیل میں جا کر بال کی کھال ڈھونڈھنے لگیں تو معلوم ہو گا کہ اثاثے ظاہر کرنے والاہر شہری غیرصادق اور خائن و نا اہل ہے کیونکہ تنخواہ نہ لینے پر سزا ہو سکتی ہے تو پھر ظاہر شدہ اثاثوں میں کوئی معمولی غلطی ڈھونڈھنا تو قطعی طور پر کوئی مشکل کام نہیں سمجھا جائے گا،آپ لاکھ احتیاط برتیں لیکن اگرآپ کے خلاف کوئی غلطی ڈھونڈھنا مقصود ہے اور سیاسی حالات کا تقاضا ہے کہ آپ کو غیر صادق اور غیر امین قرار دے کر نا اہل ثابت کرنا ہے تو پھر آپ کے انتہائی احتیاط سے مرتب کردہ اثاثوںکے گوشواروں میں غلطیاں ہی غلطیاں ڈھونڈھ لی جائیں گی، ہمارے قانون میں کسی بھی شکایت پر ایف آئی آر درج کروانا کسی بھی شکایت کنندہ کا قانونی حق ہے کوئی پولیس والا ٓپ کی شکایت ضابطے کے مطابق درج نہ کرنے سے انکار نہیں کر سکتا لیکن عملی طور پر یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ، اکثر معاملات میں پولیس شکایت کنندہ کی ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کرتے ہیں ، اسی لیے آپ کی چوری ہو جائے ڈکیتی کا شکار ہو جائیں کوئی قابل دست اندازی جرم آپ کے خلاف ہو جائے تو ااس کیس میں انصاف ملنا تو بہت بعد کی بات ہے، ہم ایف آئی آر کے اندراج کو ہی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں کیونکہ اکثر مقدمات میں ایف آئی آر درج نہ ہونے پر قانون کے تحت عدالت سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ بائیس اے کے تحت عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے یعنی آپ کے خلاف ذیادتی سے متعلق مقدمہ تو بعد میں سنا جائے گا یہاں پر پہلے ایف آئی آر کے اندراج کے لیے مقدمہ بازی کرنا پڑتی ہے۔ اسی لیے ایف آئی آر کو بطور سیاسی ہتھکنڈا بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ 
عمران خان کے خلاف اس وقت بھی کہا جا رہا ہے کہ درجنوں ایف آئی آرز کٹ چکی ہیں تاکہ قانون کی گرفت سے بھاگنے کی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہ بہت خطرناک عمل ہوتا ہے ، مرحوم ارشد شریف کے خلاف جب دو درجن ایف آئی آرز کا اندراج ہوا تو مقصد ہی یہی تھا کہ انکے خلاف زمین تنگ کر دی جائے اس کا جو نتیجہ نکلا وہ تاریخ کا ایک سیاہ اور خونی باب ہے، بالکل اسی طرح سے سیاست میں ایف آئی آر ز کو بطور ہتھکنڈے کا استعمال کرنا بجا طور پر ایک ایسا عمل ہے جو آئین و قانون میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی روح کے خلاف ہیں ۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی مقاصد کے لیے قائم کیے گئے مقدمات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا ، وقت بدلتا ہے تو قانون بھی اپنی راہ بدل لیتا ہے کیونکہ قانون نے اپنی راہ خود نہیں بنائی ہوتی بلکہ قانون کو زبردستی کسی من چاہے دھارے کی صورت موڑا جاتا ہے جو کہ اصول فطرت کے خلاف ہے۔ 
پولیس کا کام سیاسی حکمرانوں کا ایجنڈے کی تعمیل نہیں بلکہ ہر شہری کا تحفظ پولیس کا فرض ہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ جس عمارت کے گرد خاردار تاریں لگی ہوں ، پولیس والے و دیگر پہرے دار حفاظت کے لیے موجود ہوں تو سمجھ لیجیے کہ اندر آپ کے محافظ رہتے ہیں ۔ پنجاب پولیس کا جو کردار ہے وہ تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے عدالتوں کے بڑے فیصلے پولیس کی من مانیوں اور ذیادتیوں کے خلاف موجود ہیں لیکن آج بھی ہمارے حکمران اپنے سیاسی ایجنڈے کی خاطر پولیس کی نہ صرف ترجمانی کر رہے ہیںبلکہ عوام کے حقوق کے تحفظ کی بجائے پولیس والوں کو حق بجانب قرار دے رہے ہیں ۔ گزشتہ دو دنوں میں پنجاب اور اسلام آباد میں عمران خان کی پیشی سے متعلق جو بھی حالات ہوئے ، ان پر بہت تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، لیکن نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پورے معاملے میں صرف پولیس کی وکالت اور پولیس کے دفاع کے لیے ایک جوڈیشل انکوائری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حکمرانوں کے تابع ہوتے ہیں ، اگر آپ انہیںسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں گے تو پھر انکا دفاع بھی کرنا ہو گا اور شہریوں کے حقوق کو ’دفعہ‘ کرنا ہو گا ۔ 

ای پیپر دی نیشن