وطن عزیز میں ان دنوں 1973ءکے متفقہ آئین کی تشکیل کے پچاس برس مکمل ہونے پر آئین اور جمہوری اداروں کا جشن طلائی منایا جا رہا ہے، اسی ضمن میں مجلس شوریٰ کے ایوان بالا میں منعقدہ خصوصی تقریبات کے دوسرے روز پورے ایوان کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کی خاطر تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈا اور کفایت شعاری سمیت اہم ترین اقدامات اور معاملات، پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر فیصلے کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونا ہو گا، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم قومی اور عوامی مفاد داﺅ پر نہیں لگنے دینگے اور کسی کو ملکی حالات خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو معیشت کو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا، بدقسمتی سے گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کئے معاہدے اور اسکی شرائط کا پاس نہیں کیا، اس نے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر عالمی اداروں میں پاکستان کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ سابق حکومت نے خزانے میں کوئی فنڈز نہیں چھوڑے، نوٹ چھاپتے گئے اور بجٹ کے بغیر بے شمار سبسڈیز دیتے رہے۔ موجودہ اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم نے ریاست کا تحفظ کرنا ہے، ہم نے کفایت شعاری سمیت کئی ٹھوس اقدامات اٹھائے جن سے عام آدمی کیلئے مشکل صورتحال بنی لیکن ہم نے ایسے فیصلوں کو اپنانے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا اور ریاست کو بچانے کیلئے سیاست کو قربان کیا۔ ہم کوئی فرشتے نہیں ہیں، ہم سے بھی خطائیں ہوتی ہیں لیکن ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جو شخص اپنی غلطی کو تسلیم کر لے وہ بڑا انسان ہوتا ہے، ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد کیلئے سیاسی قیادت مل بیٹھتی تھی، بڑے سے بڑے بحرانوں پر گفت و شنید کی اور انکے حل نکالے اسکے برعکس 2020ءمیں سپیکر قومی اسمبلی نے کورونا پر ایک اجلاس منعقد کیا، یہ کام وزیر اعظم کا تھا لیکن انا اور تکبر ان کے آڑے آ گیا، زوم پر ہونے والے اس اجلاس میں وزیر اعظم نے اپنی بات کی اور چلے گئے۔ اس کو انا پرستی کہتے ہیں۔ فروری 2019ءمیں بھارتی جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، اس دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کو اس وقت کے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی طرف سے پریزنٹیشن دی جانی تھی، ہم ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرتے رہے جس کے بعد جنرل باجوہ نے ہمیں پریزینٹیشن دی لیکن وزیر اعظم اس بحرانی صورت حال میں بھی ہمارے ساتھ نہیں بیٹھے، قوم کا لیڈر انا پرست نہیں ہوتا، اس میں تکبر، غصہ نہیں ہوتا بلکہ وہ محبتیں بانٹتا ہے، سب کے ساتھ مل کر مسائل کا حل نکالتا ہے۔ آج سیاستدان گالی بن چکا ہے، پاکستان کے نظام کو تہہ و بالا کرنے کیلئے اسے آخری دھکا لگایا جا رہا ہے اس طرح قومیں سر اٹھا کر نہیں چل سکتیں،ہم سب کو مل کر سر جوڑ کر، بیٹھ کر فیصلے کرنے ہونگے۔ میں نے قومی اسمبلی میں 2018ءکے بعد اپنی پہلی تقریر میں میثاق معیشت کی بات کی اور اس کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے ٹھکرایا گیا، ہمیں چور اور ڈاکو پکارا گیا تاہم ابھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھ کر اس عظیم پاکستان کو مشکلات سے نکالیں۔ سازشوں کی بجائے کاوشوں کا راستہ اختیار کریں، خرابی پیدا کرنے کی بجائے اس کو دور کریں، نفرت اور زہر پھیلانے کی بجائے محبت بانٹیں اور قوم کے دکھ درد کو تقسیم کریں، غربت، بے روز گاری، بیماری ختم کریں، اگر ہم نے عملی اقدامات نہ اٹھائے تو بہتری نہیں ہو سکے گی۔ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے، یہ ضرور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرےگا....!
مقام شکر ہے کہ دوسری جانب سے بھی وزیر اعظم کے اس پیغام کا جواب خاصے مثبت انداز میں دیا گیا ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں نے بھی اپنی وزارت عظمی اور اسکے بعد کے دور میں پہلی دفعہ اس طرز فکر کا مظاہرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا، میں اس ضمن میں کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہوں اور اس جانب ہر قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں۔ عمران خاں کی سوچ میں یہ بنیادی تبدیلی قابل قدر اور ستائش کے لائق ہے کہ انہوں نے قومی مفاد اور جمہوریت کی خاطر کسی سے بھی بات کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے ورنہ اب تک ان کا موقف یہی رہا ہے کہ اقتدار میں موجود انکے مخالف سیاست دان چور اور ڈاکو ہیں جن سے کسی صورت بات نہیں ہو سکتی، وزیر اعظم شہباز شریف نے سیاسی قیادت کے مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے اگر وہ اس میں سنجیدہ ہیں تو حکومت کو عمران خاں کی اس پیشکش کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا چاہئے اور کسی تاخیر اور لیت و لعل کے بغیر قومی سطح پر سیاسی قائدین کے مابین وسیع تر مذاکرات کا آغاز کیا جانا چاہئے۔
پاکستان کے عوام اس وقت ایک جانب اگر غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی بچوں کو فراہم کرنے میں ناکام رہنے والے غریب، بے بس اور لاچار آدمی کو بچوں سمیت خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا اور اس کی مثالیں آئے روز سامنے آ رہی ہیں مگر سیاستدان اس سے قطعی لاتعلق اور بے پرواہ ہو کر باہم کشیدگی کو ہوا دینے اور ایک دوسرے پر الفاظ کی گولہ باری میں مصروف ہیں۔ سیاست دانوں کیلئے مناسب طرز عمل یہی ہے کہ وہ باہمی لڑائی کے ذریعے عوام کے مسائل میں اضافہ کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کریں تاکہ عوام کو دہری اذیت سے چھٹکارہ مل سکے....!!!