پاکستان کے سیاست دانوں اور طاقت کے مراکز کو کون اس حقیقت کا ادراک کر ائے کہ معاشی عا لمگیر یت کی بدولت یہ دور معاشی سیاسیات کا ہے اس دور میں سیاست اور معیشت دونوں کو حا کمانہ طور طریقوں سے نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ آج کی اس دنیا میں حکمرانی کے معاشی طریقے اپنا لوہا منوا چکے ہیں مگر پاکستان کی ہمیشہ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کے سیاست دانوں اور فیصلہ ساز قوتوں کی باہمی چپقلش، ذاتی اور ادارتی ترجیحات، گروہی مفادات، طاقت اور اقتدار کی ہوس نے جہاں اس ملک کے سماجی فیبرک کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے وہیں اس ملک کی معیشت کو بھی تہہ تیغ کر دیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ عمران خان کی مقبولیت کا گراف اپنے اقتدار کے چھوتے سال اس لیے گر گیا تھا کہ لوگوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں معاشی خدشات لاحق ہو گئے تھے جبکہ مسلم لیگ لیگ (ن) کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ گورنس اور معیشت کے معاملے میں ان کے پاس تجربہ کار ٹیم ہے۔ شہباز شریف کو گورنس اور اسحاق ڈار کو معیشت کا ایکسپرٹ تسلیم کیا جاتا تھا مگر گزشتہ دس ماہ میں شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے گورنس اور معیشت کے معاملات کو خراب کیا ہے۔
عمران خان کی معاشی خرابیوں کو بہتر بنانے کی بجائے اس میں اس قدر بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ اس سے عمران خان دوبارہ سیاسی عروج حاصل کر گیا ہے بلکہ عوام نے بھی اس بات کو ضد بنا لیا ہے کہ ہر حال میں عمران خان کو برسرِ اقتدار لانا ہے۔ عمران خان کی جارحانہ سیاست نے ملک کی نوجوان نسل کو اس کا گرویدہ بنا دیا ہے اور وہ اپنے لیڈر کے لیے ہر حد عبور کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کی اس سیاسی طاقت نے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو مکمل طور پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے مگر حکمرانوں اور عمران خان کون سمجھائے کہ دونوں کی متحارب انداز سیاست وطن عزیز کے قطعاً مفاد میں نہیں ہے۔ ہمارے تاریخی اور سماجی حقائق سے نابلد سیاست دان اور طاقتور اعلی شخصیات کو جان لینا چاہئے کہ کہ اس دور میں معیشت اور سیاست کو من مانی اور حا کمانہ طریقوں سے نہیں چلایا جا سکتا ہے سیاست میں محاذ آرائی کی وجہ سے غیر جمہوری قوتیں عرصہ دراز تک اس ملک کے سیاہ و سپید کی ما لک رہیں اور ملکی معاشی معاملات سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے سنگین تباہی کا شکار بنے ماضی کی مثال لیں تو پتا چلے گا کہ سیاسی مفادات کی خاطر بھٹو صاحب نے بغیر سوچے سمجھے صنعتوں اور بڑی چھو ٹی ملوں کو قومیا کر اس ملک کی صنعت کاری کو کہی سال پیچھے دھکیل دیا جس کا ازالہ آج تک نہیں ہو سکا او را موجودہ دور میں اسکی واضح مثال یہ ہے کہ پاکستان کے دو سابق وزرائے خزانہ شوکت ترین اور اسحاق ڈار نے سیاسی مفادات کے لیے دو دفعہ آئی ایم ایف کا تو سیع فنڈ سہولت پر وگرام پر عملدرآمد معطل کر وا کر آج پاکستان کو شدید مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان کر جہاں عام عوام شدید مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکی ہے وہیں ابھی آئی ایم ایف کے پیکیج کی بحالی میں کوئی واضح پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے اس دور میں غیر ترقی یافتہ او ر ترقی یافتہ ممالک میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اول الذکر حاکمانہ طریقوں سے معیشت چلا نے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر مستزاد کہ پاکستان جیسے ممالک میں بری حکمرانی، غیر ترقیاتی اخراجات، اور کرپشن کی وجہ سے سے معیشت کے ذرائع سے عوام مستفید نہیں ہو رہے ہیں جبکہ ثانی الذکر نے حکمرانی کے معا شی طور طریقوں کی بدولت اپنے عوام کو خوشحالی کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک اپنی داخلی اور خارجی قوت معاشی پائیداری اور استحکام پر حاصل کر تے ہیں آج کے دور میں جمہوریت اور معیشت ایک دوسرے کا جزو لا ینفک ہیں ان میں گہرا ریاضیاتی تعلق ہے ۔جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے اس کے تمام کل پرزے معا شی تعلقات کی بنیاد پر ترویج پاتے ہیں کسی بھی ملک میں اعلیٰ اور ارفع جمہوریت کو ناپنے کا پیمانہ معاشی اشاریے ہوتے ہیں جتنے یہ عوام کے مفاد میں ہوتے ہیں اتنے ہی عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ جس ملک میں جتنا زیادہ بجٹ ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کے پراجیکٹس پر خرچ ہوتا ہے وہاں پر ہی جمہوریت کے ثمرات سے عام لوگوں کو فائدہ حاصل ہو تا ہے مثلاً ناروے، سویڈن، جاپان جیسے ممالک میں لوگ جمہوریت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے اس لیے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ وہاں عوامی فلاح بہبود پر حکومت اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ خرچ کرتی ہے جبکہ پاکستان میں بجٹ کا 94 فیصد ڈیٹ سروسنگ، دفاع، اور انتظامی آخراجات پر خرچ ہوتا ہے محض 6 فیصد سے کیا سماجی بہتری اور بہبود ہو گی جس کے لیے یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا پاکستان میں اب لالچ اور ہوس دولت کے علاوہ مہنگائی کی وجہ سے وہ سرکاری ملازمین بھی رشوت لینے پر مجبور ہیں جو شاید عام حالات میں ایسا نہ کرتے اب کلی معیشت کی یہ حالت ہے کہ غیر ملکی قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے بھی کمرشل قرضے لینے پڑھ رہے ہیں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے کہ یہ دور معیشت اور ٹیکنالوجی کا ہے اور وہی ملک ترقی کی منازل طے کر تا ہے جہاں اجتماعی قیادت کا کوئی سیاسی وژن ہوتا ہی لی کوان، ڈینگ زیاو¿ پنگ اور چین کی موجودہ قیادت اس بات کی روش مثال ہے کہ وہی ملک معاشی ترقی کی معراج پر پہنچتے ہیں جہاں اقتصادی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچتے ہیں چاہے وہ جمہوریت ہو یا نہ ہو کیونکہ یہ دور معاشی مسابقت اور معاشی معیار وں کے مقابلے کا ہے ہمیں بھی اپنی بقا کے ان راستوں کو چننا ہو گا