تیزی سے بدلتے موسم 


کیا کوئی شخص ٹھیک ٹھیک بتاسکتا ہے کہ ملک کے میدانی علاقوں میں حالیہ موسم ِ سرما کے دوران کتنے گھنٹے ،کتنے دن یا کتنے ہفتے قلفی جمادینے والی سردی پڑی؟۔مجھے خود جو تجربہ ہوا، اس کی رو سے کہہ سکتا ہوں کہ رواں سال جنوری کے آخری ہفتے اور فروری کے پہلے عشرے کے دوران سردی نے اپنے تیور دکھائے ۔ اس دوران گاﺅں سے خبریں مل رہی تھیں کہ رات کے وقت چپہ چپہ کہرا جما۔ جس سے فصلوں کو بے حد نقصان پہنچا۔ فروری کے آخری دنوں سے لوگوں نے گرم کپڑے صندوقوں میں بند کردیئے اور گرمیوں کا پیرہن زیب تن کرلیا۔ مارچ کا مہینہ تو بہرحال تیور بدل چکا ہے،سورج آنکھیں دکھارہا ہے ، یہ مہینہ بہار کا ہونا چاہئے۔ رنگارنگ پھول تو کھلے ہیں، لیکن یہ کتنے دن خوشبو بکھیرتے ہیں، اور کب موسم کی تمازت سے مرجھاجاتے ہیں، اس بارے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے ۔ 
پچھلے سال تو ہم فروری میں سیدھے موسم گرمامیں داخل ہوگئے تھے، بہار کا عالم ہم نے دیکھا تک نہیں۔ پہلے پنکھے چلے، پھر ساتھ ہی اے سی آن ہوگئے ،بجلی کے بلوں نے کڑاکے نکال دیئے ،مگر شدید گرمی کے سامنے کس کی دال گلتی ۔ یہ گرمیاں دیکھتے دیکھتے برسات میں تبدیل ہوگئیں۔ ایسی برسات تو کئی نسلوں سے ہم نے نہیں دیکھی تھیں۔ جل تھل ایک ہوگیا، پہاڑی ندی نالے ابل پڑے۔ دریاﺅں کے کنارے کئی منزلہ ہوٹل اپنی بنیادوں پر ڈھیر ہوگئے ۔ بلوچستان کی تباہی نے تو پریشان کرکے رکھ دیا۔ ڈی جی خان اور راجن پور بھی سیلِ ِ رواں میں ڈوب گئے ۔ پھر زیریں سندھ کی باری آئی۔ یوں لگتا تھا کہ سارا سندھ جھیلوں کا منظر پیش کررہا ہے ۔ دریاکناروں سے اچھل گئے۔ نہروں کے بند ٹوٹ گئے ۔ انسانی بستیاں دیکھتے ہی دیکھتے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ لاکھوں ایکڑ پر لہلاتی فصلیں سیلابی لہروں کے سامنے تنکوں کی طرح بہہ گئیں۔ ریلوے لائنیں اکھڑ گئیں۔شاہراہیں میلوں تک ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ شمالی علاقوں میں حالت اس سے بھی کہیں زیادہ غیر ہوگئی تھی۔ 
سوات ، مالاکنڈ، گلگت اور قبائلی علاقے شوریدہ سر لہروں کی زد میں تھے۔ نوشہرہ میں تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا۔ لوگ موٹروے پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ مہینوں طوفانی بارشوں کا سلسلہ تھمنے میں نہ آیا۔ ریلیف اور ریسکیو پارٹیاں بھی موت کی نیند سو گئیں۔ ایک تہائی پاکستان سیلاب کی زد میں آگیا۔ کئی انسان ڈوب گئے ۔ جو باقی بچے،وہ موسم کی سختیوں اور وبائی امراض کے ہاتھوں لاچار دکھائی دیئے ۔ 
موسم کا رنگ ڈھنگ اب بھی وہی پچھلے برس والا ہے ۔ ابھی ہم تین کروڑ انسانوں کی بحالی کا کام پورا نہیں کرسکے ۔ ان کی مدد کے لئے ساری دنیا آگے بڑھی،لیکن نقصان اتنا بڑا تھا کہ خیراتی ادارے بھی نڈھال دکھائی دیئے۔ و زیراعظم شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے لوگوں کا دکھڑا بیان کیا ۔مصر کی شرم الشیخ کانفرنس میں دنیا نے ہماری امداد کے بڑے بڑے وعدے کئے ۔ جنیواکانفرنس تو اس حد تک کامیاب رہی کہ ترقی یافتہ ممالک نے دس ارب ڈالر کی امداد کے وعدوں سے ہمیں بہلانے کی کوشش کی۔کئی برادر ممالک نے بڑھ چڑھ کر امدادی سامان بھجوایا ۔اندازہ تھا کہ مکمل بحالی کے لئے تین سال لگ جائیں گے۔ کراچی اور حیدرآباد میں بھی موسلادھار بارشوں نے چمکتی ،دمکتی سڑکوں کو ندی نالوں میں تبدیل کردیا ۔ کیا غریب ،کیا امیر،کوئی شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ہر چند کہ پاکستان نے واویلا کیاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں تباہی کا شکار ہوا ہے ، یہ بھی واضح کیا گیا کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا ایک فیصد بھی کردار نہیں، لیکن نقصان اس کو ایک سو ایک فیصد تک پہنچا ہے ۔ پاکستانی قیادت نے دنیا پر زور دیا کہ یہ سارا کیا دھرا ترقی یافتہ ممالک کا ہے ، لہٰذا نقصان پورا کرنا بھی ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ 
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنی آنکھوں سے سیلاب کی تباہی کا منظر دیکھنے آئے ، انہوں نے ہر عالمی فورم پر ترقی یافتہ ممالک کو پاکستان کی مدد کرنے کی اپیل بھی کی ۔ لیکن فطرت کا اپنا ایک اصول ہے۔ کہ ہمیں اپنی مدد آپ بھی کرنا ہوگی، اپنے آپ کو خود سہارا دینا ہوگا۔ غیروں کی طرف دیکھتے رہنا سعی لاحاصل ہے ۔ 
میں نے پچھلے سال کے المئے کو اس وجہ سے دہرایا ہے کہ ہمیں اس سے کوئی سبق سیکھنا ہوگا۔ ابھی مارچ کا مہینہ چل رہا ہے ۔ گرمی کی شدت وقت کے ساتھ تیزی سے بڑھتی چلی جائے گی۔ہمارے ماہرین کو ابھی سے مون سون پر نظر رکھنی چاہئے ۔ ہمارے شہری اداروں کو ندی نالوں کی صفائی کے لئے فوری متحرک ہونا پڑے گا ۔ ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر سرکاری محکمے کو اپنے اپنے طور پر بھرپور تیاری کرلینی چاہئے۔ خدا نہ کرے کہ ہم پچھلے سال کی طرح ایک طویل مون سون کا شکار ہوجائیں ، ہمیں اپنے خدا کے سامنے گڑگڑاکر ،ہرقسم کی آزمائش سے پناہ مانگنی چاہئے ۔ ہمیں اپنی ترجیحات کاازسرِ نو تعین کرنے میں غلطی نہیں کرنی چاہئے ۔ ملک میں انتخابات کا شوروغوغا برپا ہے ، اور کچھ پتہ نہیں کہ قدرت کا فیصلہ کیا ہے ۔ سیاست میں ضدبازی اور ہٹ دھرمی اپنے عروج پر ہے ۔ نہ کسی کو مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کا خیال ہے ،نہ سیلاب میں ڈوبے لوگوں کی فکرہے، عمران خان کی سابق حکومت نے ملک کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں کس دیا ، اب عوام مہنگائی کے ہاتھوں نالاں ہیں اور بلبلا رہے ہیں۔ ان حالات میں جو لوگ اپنی سیاست کی دوکان چمکانا چاہتے ہیں، ان کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ 
ہمیں سب سے پہلے اپنے عوام کی معاشی مشکلات کو دور کرنا ہے ، پھر موسم گرما اور موسم برسات کے تیوروں کا اندازہ لگانا ہے ، کہیں سے کوئی چین کی صورت نظرآئی تو ہم الیکشن کے چونچلوں کا شوق بھی پورا کرلیں گے ۔الیکشن کے میلے ٹھیلے بھی سجالیں گے، اپنی حکومتیں بھی بنالیں گے، مجھے یہاں ترکی اور شام کے ہولناک زلزلے کا ذکر کرنا ہے ، یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں۔ ہمیں ان کا سہارا بھی بننا ہے ۔ اپنے معمولات کو بھی چلانا ہے ۔ ترکی کے ایک لیڈر نے تواپنے ملک میں آنے والے زلزلے کے بعد کہا تھا کہ اسے یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی بہت بڑے قبرستان کا وزیراعظم یا صدر ہے۔ حکومتیں معمول کے حالات میں تو چلائی جاسکتی ہیں، لیکن حالات کو سنبھالناکسی کسی حکومت کے بس میں ہوتا ہے ۔ جہاں پچھلے سال کے سیلاب زدگان ابھی تک ریلیف اور ریسکیو ٹیموں کا انتظار کررہے ہیں ، وہاں ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ کسی نئی تباہی سے دوچار نہ ہوجائیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہمارے لیڈروں کو عقل و شعور سے بہرہ مند کرے ،تاکہ وہ عوام کے دکھوں کی طرف بھی توجہ دے سکیں۔ آمین
موسمی تغیر و تبدل کا اس سے بین ثبوت اور کیا ہو گا کہ جب میں یہ کالم اشاعت کے لیے ای میل کر رہا ہوں تو لاہور پر کالی گھٹائیں چھائے ہوئے چار روز گزر گئے ہیں ۔اور اس لمحے گھن گڑج کے ساتھ موسلادھار بارش جاری ہے ۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن