سیاسی قیادتیں فہم و تدبر کی طرف آئیں 

Mar 21, 2023


پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں اپنے خلاف مقدمات کے اندراج‘ زمان پارک میں پولیس ایکشن اور پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کی جانب سے یہ سب کچھ ذاتی مفادات کیلئے کیا جارہا ہے۔ مگر قوم فیصلہ کر چکی ہے کہ غلامی قبول نہیں کرینگے۔ انکے بقول اگر یہ باز نہ آئے تو لوگ سری لنکا کو بھول جائیں گے۔ گیم سب کے ہاتھ سے نکلنے والی ہے۔ انہوں نے ہوش نہ کیا تو حالات اس طرف جائیں گے جیسا کہ ایران میں ہوا۔ چیزیں کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گی۔ 
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آج ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام انتہاءتک جا پہنچا ہے جس میں پی ٹی آئی اور حکمران اتحادی جماعتوں کے مابین جاری بلیم گیم کا زیادہ عمل دخل ہے۔ اس فضا میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا شیڈول کے مطابق انعقاد بھی ناممکنات میں شامل ہوتا نظر آرہا ہے۔ قومی معیشت بھی ڈانواں ڈول ہے اور اقوام عالم میں بھی پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں منفی تاثر اجاگر ہو رہا ہے جس سے آئی ایم ایف کو بھی ہم پر کاٹھی ڈالنے کا نادر موقع ملا ہے جبکہ اسی عدم استحکام کی فضا کے باعث ہماری سلامتی کیلئے بھی مزید خطرات پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہ صورتحال تو قومی سیاسی قیادتوں سے فہم و تدبر اور معاملہ فہمی سے کام لینے کی متقاضی ہے مگر بدقسمتی سے سیاسی درجہ حرارت بلند سے بلند تر ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو نقصان پہنچانے پر منتج ہو سکتا ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد پی ٹی آئی قائد عمران خان نے قومی ریاستی اداروں کیخلاف منافرت کی سیاست انتہاءکو پہنچائی اور اپنی مخالف حکمران سیاسی قیادتوں کی تضحیک میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جس سے رواداری کی سیاست کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ انہوں نے اپنے بیانیے کے بل بوتے پر بلاشبہ بے پناہ عوامی مقبولیت حاصل کی مگر اس مقبولیت کے زعم میں وہ آئین و قانون کی عملداری کو بھی رگیدنا شروع ہو گئے جس سے زیادہ خرابی پیدا ہوئی۔ اب وہ عدالتوں میں پیشی کیلئے بھی کارکنوں کا لاﺅلشکر ساتھ لے کر جاتے ہیں جبکہ زمان پارک میں انکی اقامت گاہ کے باہر جس طرح پتھراﺅ‘ پٹرول بم اور ڈنڈے استعمال کرکے ریاستی اتھارٹی کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا گیا اور جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا گیا اس سے ملک میں لاقانونیت اور ریاستی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا تاثر ہی اجاگر ہوا۔ چنانچہ انتظامی مشینری اس لاقانونیت کے آگے بند باندھنے پر مجبور ہوئی ہے۔ بے شک ملک کی آج کی صورتحال امن و امان کی متقاضی ہے جو قومی سیاسی قیادتوں میں فہم و بصیرت کی ہی متقاضی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور دوسری حکومتی سیاسی قیادتوں کی جانب سے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے اور گزشتہ روز حکومتی اتحادی مسلم لیگ قاف کے قائد چودھری شجاعت حسین نے قومی ڈائیلاگ کیلئے کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔ قومی افہام و تفہیم کا یہی صائب راستہ ہے جو فوری طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔ چودھری شجاعت حسین اس کیلئے عملی پیش رفت کریں تاہم اس عمل میں آئین و قانون کی عملداری پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتا ہے تو اس کیخلاف قانون کو اپنا راستہ ضرور اختیار کرنا چاہیے ورنہ ملک میں انارکی اور خانہ جنگی کے راستے کھلیں گے۔ 

مزیدخبریں