منگل، 28 شعبان المعظم، 1444ھ، 21 مارچ 2023ئ


عمران کے دستخط والی عدالتی آرڈر شیٹ گم ہوگئی
قدم قدم پر سامنے والے واقعات نے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی آمد اور وہاں ہونے والے تماشے کو ایک یادگار کہانی بنا دیا ہے۔ اس روز ایک ملزم کی عدالت میں پیشی کو کشمیر فتح کرنے کا منظر بنا دیا گیا۔ ہزاروں افراد اور پولیس نے اپنی اپنی طاقت اور اپنی اپنی بے بسی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ قانون کو پسپا ہونا پڑا۔ ایک پرانا لطیفہ نما واقعہ یاد آ گیا۔ ایک دو نمبر پیر سے کچھ لوگوں نے کرامت طلب کی کہ سامنے جو درخت ہے اسے بلائیں اگر وہ آ گیا تو ہم آپ کو پیر تسلیم کریں گے۔ نقلی پیر نے ایک دو مرتبہ درخت کو جو قدرے فاصلے پر تھا اپنے پاس آنے کا حکم دیا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ پیر کو بڑی خفت ہو رہی تھی مگر اچانک اس نے پینترا بدلا اور بولا تکبر اچھا نہیں ہوتا اگر یہ نہیں آ رہا تو چلو ہم خود ہی اس کے پاس چل کر جاتے ہیں۔
(نوٹ) اس لطیفہ کا ہرگز کوئی سیاسی غیر سیاسی مطلب نہیں نہ اسے کسی خاص تناظر میں دیکھا جائے۔ تو صاحبو! حالات کو بگڑتا دیکھ کر جو کچھ ہوا سب نے دیکھا۔ 
سارا دن انتظار کے بعد عدالت نے ہنگامہ آرائی سے تنگ آ کر حکم دیا کہ عمران خان سے گاڑی میں ہی دستخط لینے کے لئے عملہ جائے وکیل عدالتی عملہ اور پولیس افسر گئے خدا جانے دستخط لئے یا نہیں اس وقت خان صاحب کی گاڑی واپس روانہ ہو چکی تھی۔ خدا خدا کر کے عملہ واپس آیا تو پتہ چلا عدالتی آرڈر شیٹ جس پر دستخط لئے تھے وہ گم ہو گئی ہے۔ ہائے ”زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے“ فائل نہ ہوئی کوئی سوئی تھی جو ہاتھ سے ایسی گری کہ پھر نہ مل سکی۔ ویڈیو میں پتہ چلتا ہے کہ فائل خان صاحب کے وکیل کے ہاتھ میں تھی۔ اب پولیس اور خان صاحب کے وکلاءکے بیانات سے تو یوں لگا ہے گویا ”جھمکا گرا رے ہم دونوں کی تکرار میں“ اب پتہ چلا ہے کہ نئی آرڈر شیٹ تیار کی گئی اور یوں اب عمران خان کو 30 مارچ کو حاضر ہونے یا پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں اس پر کتنا اور کیسا عمل ہوتا ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭
آسٹریلیا کے دریا میں اچانک لاکھوں مچھلیاں مر گئیں
ہو سکتا ہے یہ مچھلیاں کسی سیاسی انتشار یا خوفناک وباءکا شکار ہوئی ہوں یا پھر ہو سکتا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں دریا میں پھیلائی جانے والی آلودگی نے ان کی جان لے لی ہو یا پھر حالات و واقعات سے تنگ آ کر انہوں نے اجتماعی خودکشی کر لی ہو آخر حضرت انسان بھی تو ایسا ہی کرتا ہے۔ اجتماعی قتل‘ اجتماعی خود کشی یہ سب کسی نہ کسی عمل کے ردعمل میں سامنے آتے ہیں اب کوئی مانے یا نہ مانے آسٹریلیا کے دریا میں ان مچھلیوں کااچانک لاکھوں کی تعداد میں مرنا کسی نہ کسی ملکی یا غیر ملکی سازش کا شاخسانہ ہو سکتا ہے اب یہ آسٹریلیا کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا سراغ لگائے اور اصل محرکات کہ پتہ لگا کر اس کے خلاف شدید کارروائی کرے۔ خدا جانے آج کل یہ اچانک کیا ہو رہا ہے‘ کہیں اچانک آسمان سے مچھلیوں کی بارش ہو جاتی ہے کہیں اچانک ہزاروں پرندے گر کر مر جاتے ہیں۔ شکر ہے اب تک آسمان سے آگ یا پتھروں کی بارش نہیں ہوئی۔ جسے عذاب الٰہی کہا جاتا ہے۔ انسانوں کے ہاتھوں ماحول کی تباہی اور قدرت کے بنائے فطری نظام میں مداخلت کے بعد کچھ بعید نہیں اب وہ وقت آنے والا ہو جس میں سمندر خشکی پر چڑھ آئیں گے۔ جنگلی جانور شہروں کا رخ کریں گے۔ انسانی حیات کے لئے ضروری عناصر ختم ہوں گے تو وہ بھی ان مچھلیوں کی طرح انسان بھی دھڑا دھڑ بے بسی سے مرنے لگیں گے۔ ایسا وقت آنے سے قبل ہی انسانوں کو چاہئے کہ وہ قدرتی ماحول کو ماحولیاتی نظام کو محفو ظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے ورنہ ان کا اپنا کردار ختم ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
مفت آٹے کی فراہمی میں مسائل فوری حل کئے جائیں‘ محسن نقوی
اب کیا کہا جائے کہ غریبوں کا صبر و قرار تو مہنگائی کے پے در پے حملوں نے ختم کر کے رکھ دیا ہے ایسے وقت میں جب غریب کے لئے ایک روٹی خریدنا مشکل ہو گئی ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے مفت آٹے کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا جائے گا تو پھر غدر تو مچنا ہی ہے۔ لائنوں میں لگنے کی ہمیں عادت نہیں کیا امیر کیا غریب ایک دوسرے کو دھکا دے کر کاندھا مار کر آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ صبر کا مادہ ہم میں بالکل ختم ہو گیا ہے یہی حال مفت آٹے کی تقسیم کے موقع پر نظر آ رہا ہے۔ لوگ آٹا سیل مراکز اور ٹرکوں پر یوں ٹوٹ پڑے ہیں کہ لگتا ہے جنگ ہو رہی ہے۔ آٹا موجود ہے مگر چھینا جھپٹی ہو رہی ہے۔ اگر یہی لوگ قطار بنا کر آٹا لیں تو زیادہ آسانی سے کم وقت میں ایسا کر سکتے ہیں مگر ایسا کون کرے اور کرے تو کیوں کرے ہمیں عادت ہے تماشہ لگانے کی سو وہ ہم لگا رہے ہیں۔ آٹا مفت میں حاصل کرنے والوں میں غرباءکے علاوہ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو شوقیہ لوٹ مار کے عادی ہیں۔ کھاتے پیتے ہونے کے باوجود مال مفت پر ہاتھ صاف کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ جیسے رائے شماری کشمیریوں کا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آٹا تقسیم ہوتے وقت یہ لوگ بھی بیچ میں کود پڑتے ہیں اور کئی مقامات پر ان مشٹنڈوں نے ٹرک لوٹ لئے ہیں۔ غریب بے چارہ تو مفت آٹے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنے کو تیار ہے مگر یہ مفت خور مافیا انتظار کی بجائے لوٹ مار پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ اب حکومت پنجاب مفت آٹا صرف مستحق لوگوں تک پہنچانے کے لئے سخت اقدامات کرے اور کسی کو ان کے حق پر ڈاکہ مارنے کی اجازت نہ دے۔
٭٭٭٭٭٭
پولیس کو زمان پارک کے قریب جانے سے روک دیا گیا
ظاہر بات ہے ”قدر کھو دیتا ہے روز کا آنا جانا“ اور پھر جہاں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ ڈنڈوں اور پتھروں سے استقبال ہوتا ہو وہاں کوئی بقول شاعر ”جس کو ہو زندگی عزیز‘ تیری گلی میں جائے کیوں“ تو جناب اس وقت پنجاب پولیس کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہے۔ انہیں ہاتھ پیر باندھ کر نہتا کر کے لا¶ لشکر کو قابو کرنے کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ صرف آنسو گیس یا واٹر کینن سے بپھرے ہوئے ہجوم پر قابو پانے کا کہا جاتا ہے۔ بھلا اس طرح کوئی قابو آتا ہے۔ زمان پارک کو آپریشن کے بعد پولیس نے واگزار کرایا تھا مگر دیکھ لیں کیا ہوا پھر سیاسی ورکرز نے نہایت سرعت کے ساتھ علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ حفاظتی دیواریں اور مورچے قائم کر کے خیمے نصب کر دیئے۔ اب نہتی پولیس کو ان کے غیض و غضب سے بچانے کیلئے انتظامیہ نے حکم دیا ہے کہ وہ دور دور سے زمان پارک کا نظارہ کرے اور قریب جانے کی کوشش نہ کرے۔ امید ہے پولیس سابقہ تجربات کی روشنی میں انتظامیہ کے ان احکامات پر دل و جان سے عمل کرے گی اور اپنے جوانوں کو پٹنے اور گاڑیوں کو توڑ پھوڑ سے بچانے میں کامیاب ہو گی۔ عوام بہت حیران ہیں کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ پیٹنے والے خود بری طرح پٹ رہے ہیں۔ یہ ایڈونچر انہیں کہیں زیادہ ہی متاثر نہ کر دے۔
 ٭٭٭٭٭٭ 
 

ای پیپر دی نیشن