خوشبو آں است کے خود ببوید 


قصہ مختصر …پروفیسر حافظ سجاد قمر 
Sajjadmediacentre@gmail.com 

مختصر وقت میں لاہور کا نقشہ بدل رہا ہے۔
خوشبو آں است کے خود ببوید 
نہ کہ عطار بگوید
خوشبو وہ ہے جو کہ خود اپنا آپ بتا دے ۔عطار کو بتانا نہ پڑے کہ یہ خوشبو ہے۔
کام کرنے لیے خلوص نیت ،لگن ،مستقل مزاجی اور محنت کی ضرورت ہے۔صرف 28 دنوں میں وہ انقلابی فیصلے ہوئے ہیں جو 28 سالوں میں بھی نہیں ہوئے۔لیکن شرط یہ ہے کہ اس کو ذمہ داری سمجھ کر کیا جائے۔جو بھی منصب پر آتا ہے اس کو صرف اپنی فکر ہوتی ہے۔وزرائے کرام اور بیورو کریسی کی ایک فوج ظفر موج ہمیشہ سے موجود ہے لیکن کام ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو رہا۔برصغیر میں مغلیہ سلطنت سوا تین سو سال قائم رہی۔جبکہ شیر شاہ سوری بمشکل پانچ سال حکمران رہا۔لیکن جب کارکردگی کا جائزہ لیں تو تاریخ میں مغلوں کے ساتھ ساتھ شیر شاہ سوری کا بھی نام نظر آتا ہے۔دہلی سے کابل تک جرنیلی سڑک اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔شیر شاہ سوری نے مغل حکمران ہمایوں کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا ۔ہمایوں نے بھاگ کر ایران میں پناہ لی۔یعنی شیر شاہ سوری کو اس کی طرف سے پلٹ کر حملے کا بھی خطرہ تھا۔لیکن اس نے مختصر مدت میں وہ کام کیے جو تاریخ میں اس کو انمول کر گئے۔ابراہیم حسن مراد پنجاب کے وزیر بلدیات بنے۔اس سے قبل سب سے کم عمر صدر یونیورسٹی کا اعزاز اپنے نام کرنے کے بعد سب سے کم وزیر کا منصب بھی اپنے نام کر لیا۔
ابراہیم حسن مراد کو وزارت سنبھالے بمشکل ایک ماہ  ہوا ہے ۔پہلے دن سے انھوں نے تمام مراعات لینے سے انکار کر دیا۔گاڑیاں واپس کر دیں۔بڑا گھر لینے سے انکار کر دیا۔سرکاری دفتر میں چائے اور پانی بھی اپنا استعمال کرتے ہیں۔’’بلدیہ آپ کی "  " صفائی نصف ایمان ہے۔"  یہ سلوگن انھوں نے اپنے اداروں کو دیے ہیں۔پیدائش ،اور موت کا سرٹیفکیٹ کا حصول بھی عوام کے لیے دشوار ہے۔اس کو آسان بنانے کے احکامات جاری کیے اور ان پر عمل درآمد شروع ہے۔ایک سادہ سا سرٹیفکیٹ لینا بھی عام  آدمی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔پیسے بھی دیتا ہے اور بار بار چکر بھی لگانے پڑتے ہیں۔
وزیر بلدیات نے احکامات جاری کیے ہیں کہ اس سارے عمل کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے۔اور لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر  ہر سہولت میسر ہونی چاہیے۔مرکزی اور صوبائی حکومت کے بعد بلدیات تیسری بڑی حکومت ہے۔اور یہ وہ حکومت ہے جس کا تعلق براہ راست عوام سے اور گلی محلے سے ہے۔شہروں کی صفائی ستھرائی، ناجائز تجاوزارت،پارکنگ سمیت بے شمار معاملات کا تعلق بلدیات سے ہے۔ابراہیم حسن مراد نے بیانات کی بجائے عملی اقدامات کو ترجیح دی ہے۔اور کوشش کر رہے ہیں کہ ان اقدامات کا اثر دیرپا ہو اور اس کے اثرات براہ راست عوام تک پہنچیں۔لاہور سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کمپنی میں 5 ہزار بھوت ملازمین ہیں۔جو عرصہ دراز سے چلے آ رہے ہیں۔اس کا نوٹس لیا۔لاہور کی صفائی وہ چیز ہے جو نظر آ رہی ہے۔ہال روڈ انجمن تاجران کے صدر  نے انجمن تاجران کی ایک میٹنگ میں کہ دیا کہ بلدیات کے ورکر کہ رہے ہیں کہ نیا وزیر نہ خود سوتا ہے اور نہ سونے دیتا ہے ۔اس وقت "صفائی نصف ایمان"سلوگن کے تحت پورے صوبے میں صفائی مہم جاری ہے۔یہ وہ کام ہے جو میری اور آپ کی توجہ کا متقاضی ہے۔حکومت ایک ماحول فراہم کر سکتی ہے۔لیکن اس کو مستقل جاری رکھنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ دینا ہو گا۔اگر ہم  اپنے اردگرد کی ذمہ داری لے لیں تو پورا ماحول ٹھیک ہو سکتا ہے۔اس کے لیے ہر شہر میں  رضاکارانہ کمیٹیاں قائم کی جائیں اور شوق رکھنے والے لوگوں کو ان کمیٹیوں میں  شامل کیا جائے تاکہ عوام براہ راست اس عمل کا حصہ رہے۔ابراہیم مراد کے ساتھ ہم نے کار پارکنگ ،مویشی منڈی،لاہور والڈ سٹی ،سمیت تمام اداروں کے دوروں کے دوران اس بات کو محسوس کیا کہ ابراہیم مراد کچھ کرنا چاہتے ہیں۔اور ہر معاملے کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ اپنے ذاتی کام کو دیکھتے ہیں۔اگر یہ ذمہ داری کا احساس ہی سب میں پیدا ہو جائے تو معاشرے کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وزیر صاحب نیتمام کاموں کو مرحلہ وار اور فوری طور پر کمپیوٹرائزد کرنے کے احکامات صادر کیے۔
وزارت میں شکایات سیل قائم قائم کر دیا گیا ہے۔آپ جہاں کہیں بھی ہیں۔براہ راست وزیر بلدیات شکایات سیل کو اپنی شکایت بھیج سکتے ہیں۔جب تک آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا متعلقہ محکمے کے اوپر تلوار لٹکتی ر ہے گی۔ابراہیم حسن مراد کا ماننا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ گورننس ہے۔فائل افسر شاہی کے سمندر میں کھو جاتی ہے۔اگر گورننس کو بہتر کر دیا جائے۔اور ہر چیز کو نچلی سطح پر حل کر لیا جائے۔اور صرف انتہائی ضروری کاموں کی بڑی سطح پر منظوری کا رواج ڈالا جائے۔تو عوام بہت بڑے عذاب سے بچ سکتی ہے۔ابراہیم حسن مراد سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے اور وہ اسی طرح کام بھی کر رہے ہیں۔اور وہ نظر آ رہا ہے۔سوشل میڈیا پر لوگ کوڑا کرکٹ کی تصاویر شئیر کرتے ہیں تو فوری طور پر اس کا نوٹس لیا جاتا ہے۔کاش یہ جذبہ سب اختیار کرلیں تو معاشی مسائل ہونے کے باوجود ہمارے بہت سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن