سیّد ارتقاء احمد زیدی irtiqa.z@gmail.com
ارتقاء نامہ
جیسے جیسے مہنگائی بڑھ رہی ہے مخیر حضرات اور اداروں کی طرف سے مفت کھانا فراہم کرنے کے لئے دستر خوانوں کا قیام بڑھتا جا رہا ہے۔ لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہو رہا کہ اپنی دانست میں وہ جو نیکی کر رہے ہیں اس کے منفی اثرات پورے معاشرے میں پھیلنے کا سخت خطرہ ہے۔مفت دسترخوان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے مزاروں، آستانوں اور پیری مریدی کے اَڈوں پر یہ لنگر خانے عرصہ دراز سے قائم ہیں۔ لاہور میں داتا دربار، اسلام آباد میں بری امام پر دیگیں چڑھی رہتی ہیں اور مفت کھانا تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے مفت خوروں کی ایک بڑی تعداد مستقل ڈیرے ڈالے رہتی ہے اور آہستہ آہستہ قریب کی آبادیاں جرائم پیشہ اور نشہ کرنے والے افراد کا مسکن بن جاتی ہیں۔
اگر شہروں میںاسی طرح مفت دستر خوانوں کا جال بچھا دیا گیا تو مفت خوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا اور جب باپ اور بیٹا ایسے دسترخوانوں پرروٹیاں توڑتے رہیں گے تو پوری فیملی ناکارہ اور بھکاری بن جائے گی۔ وہ محنت مزدوری سے جی چرائیں گے۔ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے مفت دسترخو انوں سے فائدہ اٹھا کر سارا دن گھروں میں لوٹ لگاتے رہیں گے۔ اور ان کی خواتین یا تو بھوکی پڑی رہیں گی یا پھر گھروں میں جھاڑو ، برتن اور کپڑے دھونے کا کام کریں گی۔ جن کو گھروں میں کام نہیں ملے گا وہ یا تو بھیک مانگیں گی یا پھر چوری چکاری شروع کردیں گی۔ اس طرح معاشرہ سنگین بے راہ روی کا شکار ہو جائے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا اس سلسلے میں مثبت تشہیر کے ذریعے ان مخیر حضرات او ر اداروں کو اس بات کا احساس دلائے کہ لوگوںکی بھوک مٹانے اور انہیں معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری بنانے کے لئے ان کو روزگار کمانے کے ذرائع فراہم کئے جائیں۔میری مخیر حضرات اور اداروں سے درخواست ہے کہ اگراللہ تعالیٰ نے آپ کو وسائل دیئے ہیں کہ غریب لوگوں کی مدد کر سکیں تو ان کو مفت دسترخوانوں پر ضائع کرنے کی بجائے معاشرے کی فلاح اور بہبود پر خرچ کریں تاکہ دیرپا اور مثبت نتائج حاصل ہو سکیں۔
وہ ملک بھر میں ہنر کدوں کے قیام پر کام کریں۔جہاں بڑھئی۔پلمبر۔الیکٹریشن۔میسن۔درزی اور تعمیراتی شعبہ سے متعلق دیگر ہنرمند افراد تیار کئے جاسکیں ۔ اگر ایسے ادارے شہروں کے علاوہ دیہاتوں میں بھی قائم کر دیئے جائیں تو دیہاتوں سے شہروں کی طرف تیزی سے ہونے والی نقل مکانی کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر شہروں کی طرف نقل مکانی اسی رفتار سے ہوتی رہی تو دو طرح سے نقصان دہ ہوگی۔
-1 شہروں میں آبادی کا دبائو بڑھنے سے سہولیات میں مزید کمی ہوگی اور سٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوگا۔ ایک حدیث شریف ہے جس کا مفہوم ہے کہ اپنے شہروں کو ایک حد سے زیادہ نہ بڑھنے دو۔ورنہ مسائل میں اضافہ ہوگا۔
-2 دیہاتوں میں زرعی شعبہ سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کی کمی واقع ہوگی۔ زیر کاشت رقبہ بتدریج کم ہوگا اور زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں ا ضافہ ہوگا۔ جس کے منفی اثرات سے دیہی اور شہری آبادی یکساں طور پر متاثر ہوگی۔
اس کے علاوہ انڈس ہسپتال کی طرز پر عام لوگوں کے مفت علاج کے لئے شفاخانے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں قائم کئے جائیں۔ اسی طرح اسکولوں کے قیام پر بھر پور توجہ دی جائے جہاں مفت تعلیم کی سہولت کے علاوہ مفت کتابیں اور کاپیاں بھی فراہم کی جائیں تاکہ غریب خاندانوں پر بچوں کی تعلیم کا کوئی بوجھ نہ پڑے۔ مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کرنے سے معاشرے سے بیماری، بے روزگاری اور جہالت کم کرنے میں مدد ملے گی۔
خدارا قوم کو بھکاری مت بنائیں
Mar 21, 2023