پاکستان کے جوہری نظام کو بیرونی طاقتوں سے نہیں بلکہ اندرونی طاقتوں سے خطرہ ہے اور یہ طاقتیں پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہیں کیونکہ ملک میں عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتیں ہیں اور جب کبھی ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے یا سیاسی انتشار میں اضافہ ہوتا ہے اس وقت ہی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ جب بھی ملک میں سیاست دان آمنے سامنے ہوتے ہیں معیشت کمزور ہوتی ہے، ریاست کی رٹ کمزور ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان سے باہر ہمارے ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے مخصوص حلقوں کی طرف سے ایسی بحث چھیڑی جاتی ہے تاکہ کسی بھی طریقے سے پاکستان کو دباؤ میں لایا جا سکے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے ملک ضرور ہیں جنہیں ہر وقت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو سوچ سوچ کر مروڑ اٹھتے رہتے ہیں اور ہمارا ازلی دشمن ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ایسے ممالک میں سرفہرست ہے اور وہ ہمیشہ ایسی مہم کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ بھارت محسوس اور غیر محسوس انداز میں ایک بیانیہ قائم کرتا ہے ہم خیال اور اپنے پسندیدہ ممالک کو ساتھ ملاتا ہے اور پھر ایسے بات شروع ہوتی ہے کہ جیسے پاکستان میں حالات بہت خراب ہیں یا اتنے خراب ہیں کہ خانہ جنگی کی کیفیت ہے اور نجانے کب کوئی ایٹمی دھماکہ کر دے یہ سارا جھوٹ پھیلایا جاتا ہے اور دنیا تک غلط پیغام پہنچایا جاتا ہے اور یہ سارا کام اس وقت شدت سے ہوتا ہے جب ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوتا ہے۔ مہینوں گذر گئے یہ لکھتے لکھتے کہ سیاسی عدم استحکام، سیاسی انتشار کم کریں، سیاست دان عقل سے کام لیں، ہوش کے ناخن لیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں ہے، کوئی بات کرنے کو تیار نہیں، کوئی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، سب کی انا ملکی مفاد سے زیادہ اہم ہو چکی ہے، سب کو اپنا مفاد عزیز ہے، سب کو اپنے مستقبل کی فکر ہے۔ سب اپنا اپنا بیانیہ قائم کرنے میں مصروف ہیں کسی کو ملک کی فکر نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالات اس نہج پر کیوں پہنچے کہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے منفی باتیں ہوں، دشمنوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے ناصرف باتیں بلکہ پاکستان دشمنوں کو اکٹھا کرنے کا موقع ملے اور پھر دنیا میں اس حوالے سے غلط معلومات پھیلتی چلی جائیں۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت تو اس معاملے میں اتنا سفاک ہے کہ وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور پاکستان کے معاملے میں اتنا جھوٹ بولنے پر یقین رکھتا ہے کہ اتنا جھوٹ بولیں کہ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنا شروع کر دیں۔ بھارت اس حکمت عملی پر مستقل مزاجی اور شدت کے ساتھ کام کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ اندرونی جھگڑوں اور اختلافات سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔ یہ حالات معمولی نہیں بہت ہی غیر معمولی ہیں اور ان کا ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف سیاسی قیادت ہے۔ اگر سیاسی قیادت ملکی مفاد میں اقتدار کی خواہش کو قربان کر کے، انتقام کے جذبے کو دفن کر کے اور اپنی انا کو قربان کر کے ملک کا سوچے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان حالات سے باہر آ سکتے ہیں۔ یہ مشکل وقت ، یہ کٹھن دور جلد ختم ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قدم پیچھے کون ہٹتا ہے، یہ حوصلہ کیسے پیدا ہو گا اور کون اتنی بڑی قربانی دے گا۔ یہاں سب آگے بڑھنا چاہتے ہیں کوئی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں حالانکہ اس وقت ملکی مفاد آگے بڑھنے کی دوڑ کے بجائے پیچھے ہٹنے میں ہے لیکن کوئی اس قربانی کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ ایٹمی اثاثے ہمارے ہیں اور امریکہ کو اس کے محفوظ ہونے کے بیانات جاری کرنا پڑ رہے ہیں اور ہمارے اپنے لوگ اس حوالے سے ابہام پیدا کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ یہ معاملات اس حد تک بگڑے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا ہے۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں
میں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو خودمختار ملک ہونے کے ناطے اپنا جوہری پروگرام تیار کرنے کا پورا حق حاصل ہے کیونکہ کسی بیرونی ڈکٹیشن یعنی ہدایت کے بغیر یہ ہمارے قومی مفادات کے مطابق ہے جس کو کسی بھی ذریعے یا طریقے سے کسی بھی طرح سے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی جوڑ توڑ کون کرتا ہے، کوئی باہر سے آ کر تو نہیں کرتا ہم خود کرتے ہیں۔ ہم اپنے اداروں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں، ہم اپنے ایٹمی اثاثوں کے لیے خود ہی بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بیرون ملک بھی افواج پاکستان کے خلاف منفی مکمل نظر آ رہی ہے۔ بدقسمتی سے اس معاملے میں پاکستان تحریک انصاف نمایاں نظر آتی ہے ان کی قیادت یہ کہتی تو ضرور ہے کہ ان کا کسی مہم سے کوئی تعلق نہیں لیکن دفاعی اداروں کے حوالے سے ان کے اپنے بیانات اس حد تک غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ ہیں ان حالات میں کارکنان خود ایک متحرک ہوتے ہیں کسی اور جماعت کے ووٹرز ایسا رویہ کیوں اختیار نہیں کرتے کیونکہ ان کی قیادت ایسے اشتعال انگیز بیانات جاری نہیں کرتی۔ ماضی قریب میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے منظم مہم چلائی گئی ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آپ کی حکومت تھی ووٹ کی طاقت سے ختم ہوئی، ووٹ کی طاقت سے پنجاب میں آپکو حکومت ملی پھر آپ خود اسمبلیوں سے نکل گئے آپ کو کس نے مجبور کیا کہ اسمبلیوں سے نکل جائیں اب انتخابات کی گردان ہے تو پھر اسمبلیوں کی تحلیل کس سوچ کے تحت کی گئی۔ سو یہ ساری باتیں غیر سنجیدہ سیاسی سوچ کو ظاہر کرتی ہیں اور ان ناکامیوں کا ملبہ دفاعی اداروں پر ڈالنا یا دفاعی اداروں کے سربراہوں کو پکارنا سیاسی قیادت کو زیب نہیں دیتا۔ اس ناکامی کے بعد جب آپ کسی کو نامناسب انداز سے مخاطب کریں گے تو کارکنان اس سے کئی گنا آگے بڑھ کر زبان استعمال کریں گے۔ پہلے آپ اندرونی طور پر یہ کام کرتے تھے اب آپ کے کارکنوں نے بیرون ملک بھی اپنی فوج کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے ہیں۔ یہ کیسی قومی خدمت ہے اور یہ کیسی سیاست ہیں جہاں سوچ اور عمل ہر جگہ شدت پسندی ہی نظر آتی ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اداروں کے خلاف غلیظ مہم چلانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "پاک فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف بیرون ملک غلیظ مہم ناقابل برداشت اور اداروں کے خلاف سازش کا تسلسل ہے۔ عمران خان اداروں اور ان کے سربراہوں کو اپنی گندی سیاست میں گھسیٹ کر آئین شکنی کر رہے ہیں۔ میرٹ پر لگنے والے آرمی چیف کے خلاف مہم ملک دشمنوں کا ہی ایجنڈا ہو سکتا ہے۔" سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ فوج کسی سیاسی جماعت کہ نہیں بلکہ ملک کی ہے۔ اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کے لیے ملک سب سے اہم یے۔ سیاست دان اگر اپنے مسائل حل نہیں کریں گے تو وقت گذرنے کے بعد رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔