کاشتکار کو فصل کا معاوضہ دیں

شاہد حمید بھٹہ 

ملک میں خراب معاشی حالات بے روزگاری غربت اور ڈالر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے جہاں انڈسٹریز اور زرعی سیکٹر کو شدید متاثر کیا ہے وہیں مہنگائی کے ہاتھوں غریب اور متوسط طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول  مشکل تر ہو گیا ہے۔ یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی اور بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے ۔ ما رکیٹ میں ضروریات زندگی کی اشیاء کے نرح بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔خام مال کی عدم دستیابی کے باعث  پیداوار متاثر ہوئی ہے۔،مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
غربت اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ضروریات زندگی کی اشیاء کی عوام کو فراہمی کیلئے پاکستان کے اندر موجود وسائل کو استعمال کرنے کی بجائے بیرون ممالک سے  امپورٹ بڑھا لی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف ہمارا امپورٹ بل خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے بلکہ اس سے ملک میں ڈالر کی قلت ہونے سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا اور پاکستان روپے کی قدر میں کمی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی بحران میں عالمی برادری بھی پاکستان کے بارے فکر مندہے۔ 
ملک کو موجودہ خراب معاشی حالات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کیا جائے۔معیشت کی بحالی کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیوں کا نفاذ کیا جائے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور کسی بھی حکومت نے زراعت کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک کو غذائی طور پر خود کفیل کرنے کے لیے زراعت کے شعبے کو باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ دے کر انڈسٹری کی طرح زرعی شعبے کو مراعات دی جائیں۔ ایسی لونگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسی بنائی جائیں جس سے پاکستان نہ صرف ملکی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کر سکے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی زرعی اجناس کو ایکسپورٹ بھی کرسکیں۔ پاکستان میں ایگرو بیسڈ انڈسٹریز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ہم اپنی زرعی پروڈکٹس کی ویلیو ایڈیشن کر کے بیرون ملک سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اربوں ڈالرز کی ضروریات زندگی کی اشیاء بیرون ممالک سے امپورٹ کرتا ہے جبکہ پاکستان کے اندر یہ اشیاء پیدا کی جا سکتی ہیں پاکستان کی امپورٹ اربوں ڈالرز میں ہے جبکہ ہم بہت کم تعداد میں اپنی اشیاء کو ایکسپورٹ کرتے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ اربوں ڈالر کی اشیاء جو بیرون ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہیں وہ تمام اشیائ￿  پاکستان کے اندر پیدا کی جا سکتی ہیں۔جن میں لوکل تیل دار اجناس دالیں وغیرہ شامل ہیں اگر ہم اپنے کا شتکار کو کو اس کی فصل کا جائز معاوضہ دیں اور اس کی ان فصلوں کی کاشت کے لیے رہنمائی کریں تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان غذائی طور پر نہ صرف خود کفیل ہو جائے گا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کی ضروریات بھی پوری کر ے گا۔ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے لو کل انڈسٹریز لوکل زراعت اور مقامی سطح پر تیار ہونے والی اشیاء کو پرموٹ کرنا ہے اگر ہم امپورٹڈ اشیاء کے استعمال کی بجائے پاکستان کی بنی ہوئی معیاری اشیاء  کو استعمال کرنا شروع کردیں تو اس سے نہ صرف پاکستان کا امپورٹ بل کم ہو گا بلکہ پاکستان معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بن کر دنیا کے سامنے آ ئے گا۔

ای پیپر دی نیشن