زرعی خودانحصاری اور کاشتکاری سے جڑے مسائل
لیاقت بلوچ
پاکستان میں گزشتہ سال سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق، جون اور اگست 2022 کے درمیان پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں زراعت، خوراک، مویشی اور ماہی گیری کے شعبوں کو مجموعی طور پر 800 ارب روپے (3.7 ارب امریکی ڈالر) کا نقصان پہنچا جس سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور کم از کم 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ شعبوں کو تقریباً 1.98 کھرب روپے (9.24 ارب امریکی ڈالر) کے طویل مدتی نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سندھ اور بلوچستان اس بارسیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 2022 کے سیلاب میں صرف صوبہ سندھ میں 60 فیصد سے زیادہ فصلیں ضائع ہوئیں۔ صوبے میں زیر کاشت 43 لاکھ ایکڑ رقبے میں سے 36 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ملک میں غریب کسانوں کی بڑی تعداد نئی فصلوں کی بوائی شروع کرنے کے بھی قابل نہیں رہی۔ بحالی کے بعد صوبے میں کاشت کیے جانے والے رقبے میں تقریباً 40 فیصد کمی کا امکان ہے۔عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کاپیشگی ادراک اور تباہی بھگتنے کے باوجود ہمارے پاس مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح منصوبہ بندی موجود نہیں ۔
کسانوں کے حوالے سے ایک اور بنیادی مشکل یہ ہے کہ اْن کے پاس نہ تو فصل کا بیمہ ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے زرعی سامان پر مناسب سبسڈی، بلکہ مہنگے زرعی مداخل، پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ اورپیداوارکی ارزاں قیمت نے چھوٹے کسانوں کی مشکلات دوچند کردی ہیں۔ گزشتہ سال سیلاب کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں تقریباً 60 فیصد پیداوار ضائع ہوگئیں۔ جبکہ اگلے سیزن ربیع (موسم سرما) کی فصلوں کے حوالے سے بھی عام کسان غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے ۔جس کے آنے والے برسوں میں ملک کی غذائی ضروریات پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔
کاشتکاری سے جڑے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میںکاشت ہونے والی فصلوں کی بیمہ پالیسی نہیں، سال 2018 میں پنجاب کے چند اضلاع میں فصلوں کی انشورنس (بیمہ) کا ایک آزمائشی منصوبہ محدود علاقے میں شروع کیا گیا تھا۔ بیمہ کمپنیاں اور بنک فصلوں کی بیمہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ پنجاب بھر کے علاوہ اِسے دوسرے صوبوں تک بھی پھیلانے کی ضرورت ہے۔حکومت کی طرف سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تعاون سے 2008 میں ایک ملک گیر قرض کی بیمہ اسکیم برائے فصل شروع کی گئی تھی ۔ تاہم یہ بیمہ صرف قرضوں کی قیمت تک محدود ہے اور ان کی فصلوں کو ہونے والے مجموعی نقصان کو پورا نہیں کرتا۔
پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے ۔ز رعی ملک ہونے کے باوجودآج ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ اِن درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری زرعی درآمدات کا حجم پیٹرولیم کی درآمدات کے لگ بھگ ہے۔ ہم خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں کی سالانہ درآمدات پر لگ بھگ 300 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔تیل کے بیجوں کی فصلوں (سرسوں، سورج مکھی، سویا بین) کی فصلوں کے رقبہ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کر کے ان درآمدات کو کم کیا جا سکتا ہے۔اس وقت پنجاب میں 12 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر موسمی مکئی کاشت کی جا رہی ہے ۔ہمارے ہاںگنے کے ساتھ دالوں کی انٹرکراپنگ کی کافی صلاحیت موجود ہے۔ گنے کی بوائی کے دوران مسور اور چنے کو ستمبر میں کامیابی کے ساتھ باہم کاشت کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ مونگ اور ماش کی فصلوں کو موسم بہار میں باہم کاشت کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ہم دالوں کی فصلوں کے کاشت کے رقبے میں اضافہ کرکے دالوں کی درآمد میں کمی لاسکتے ہیں۔
پیداوار میں کمی کی وجہ کیمیائی کیڑے مار ادویات اور کھاد کے حد سے زیادہ استعمال بھی ہے۔اس نے قدرتی وسائل جیسے مٹی، پانی، ہوا اور خوراک کے معیارکو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔درآمدی مصنوعات مقامی منڈیوں پر قبضہ کر رہی ہیں۔ ملک میں فصلوں کی پیداوار کے نظام میں پانی کے استعمال میں بہتری نہیں لائی جا سکی۔ آبپاشی کے پرانے طریقوں کی وجہ سے پاکستان میں پانی کا غیر موثر استعمال جاری ہے۔ زرعی شعبے میں استعمال کے لیے نکالا جانے والا 25 فیصد پانی نہروں میں لیکیج اور لائن لاسز کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ بقیہ پانی کی صرف ایک محدود مقدار دراصل جذب ہوتی ہے۔تجرباتی شواہد بتاتے ہیں کہ کچھ بہترین اور زرخیز زمینیں کاشت سے باہر ہو چکی ہیں جبکہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے خوراک کی طلب میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ طلب اور رسد کے درمیان بڑھتا ہوا فرق مستقبل میں غذائی تحفظ اور غربت کے خاتمے کی حکمت عملیوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اِس صورتِ حال میںپیداواری کیا مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ترقی کی رفتار بھی کم ہوجائے گی اور تجارتی خسارہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
آج ہمیںمیکرو اور مائیکرو لیول کی ساختی تبدیلیاں زرعی شعبے لانے کی ضرورت ہے۔ زراعت میں نجی سرمایہ کاری کیساتھ سبسڈی سے ہٹ کر کام اور مسائل کے حل کیلئے تحقیق کی ضرورت ہے۔ زراعت کو کمرشلائزیشن میں تبدیل کر کے incubators کا قیام اور دیہی معیشتوں کو شہروں سے جوڑنے کے لیے دیہی انفراسٹرکچر کو ترقی دینا ہو گی۔ اداروں کے ذریعے دیہی تعلیمی نیٹ ورک کی توسیع دیہی عوام کی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو بہتر بنانا ہو گا۔ بلکہ زرعی value chains کو بہتر بنا کر value addition بھی کرناہوگی۔ زرعی شعبے میں تحقیق اور جدت لانے سے مستقبل میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اورملک کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
اگرچہ ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ کم ہو رہا ہے، تاہم اب بھی یہ روزگار میں سب سے بڑا حصہ دار ہے۔ غیر ہنر مند اور غیر تعلیم یافتہ افرادی قوت کے لیے روزگارکا بنیادی ذریعہ زراعت ہے۔ زراعت میں سرمایہ کاری سے غذائی عدم تحفظ اور غربت کوختم کیاجا سکے گا۔ غیر ہنر مند اور غیر تعلیم یافتہ افرادی قوت کو صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعتوں کے لیے خام مال کی کمی جیسے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔
زراعت کے شعبے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کاشتکار وں کو بلاسود قرضوں کی فراہمی، مارکیٹنگ اور مارکیٹ کے کمزور ڈھانچے کی ترقی،مؤثر سپلائی چین مینجمنٹ کا قیام، زمینی اصلاحات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو فروغ دینے جیسے اقدامات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ کسانوں کی اکثریت چھوٹے زمینداروں پر مشتمل ہے- تقریباً 90 فیصد کاشتکار کے پاس 5 ہیکٹر سے کم زمین ہے ، سرپلس پیداوار کیلئے سرکاری سطح پر انہیں آسان قرض کی سہولت دینا ہو گی۔زرعی تحقیقاتی مراکز کی استعدادِ کار بڑھانے کیساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی و پیداواری صلاحیت میںبھی اضافہ، کرنا ہو گا، ملک بھر میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے مرکزی نظامْ/ٹیلی میٹری سسٹم میں موجود نقائص کا خاتمہ اور فصلوں کے مناسب نرخوں سمیت ضروری کھاد کی بروقت دستیابی، فوڈ سیکیورٹی، قابلِ عمل زرعی بیمہ پالیسی، زرعی اصلاحات/پالیسی سازی سے متعلق اداروں میں کسانوں کو مؤثر نمائندگی بھی دینا ہو گی۔ فصل کی منڈیوں تک رسائی کے مؤثر نظام کو یقینی بنا کر زراعت کی ترقی اور زراعت کے پیشے سے وابستہ افراد (کسانوں، ہاریوں، محنت کشوں) کو ملکی تعمیر و ترقی کے اس اہم شعبے کی طرف راغب کرنے کیساتھ ساتھ زراعت میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور مجموعی قومی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔
زرعی خودانحصاری نہ صرف معیشت بلکہ ملکی سلامتی و استحکام سے جڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی ازحد ضروری ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے نجات، پاکستانی عوام کی خوشحالی، سماجی تحفظ، عدل و انصاف ،روزگار، تعلیم یہ سب ہماری زرعی معیشت سے جڑے عومل ہیں۔زراعت پر خاطر خواہ توجہ سے ہم پے درپے بحرانوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ ملکی ترقی دراصل زراعت کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی سے ہی وابستہ ہے۔
٭٭٭٭٭