سلطان اکبر چٹھہ
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب و پی آر ٹو پی جی پنجاب
عنوان: معزز پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی ایک اور کاوش
پول کام اور کیس فلو منیجمنٹ سسٹم کا انضمام : ان دونوں سسٹم کے انضمام سے یعنی (انٹیگریشن ) سے مستقبل قریب میں جو فوجداری نظام انصاف و قانون کی فراہمی میں انقلاب آنے والا جس سے کہ بنیادی فائدہ عام آدمی کو ہو گا۔ یہ قدم حقیقت میں ایک گیم چینجر ثابت ہونے والا ہے اگر اس پر صحیح اور درست معنوں میں ایک خاص مدت تک متعلقہ محکمہ جات کے سربران کی نگرانی میں عملدرآمد ہوتا رہاتو جس کی ابھی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ جس برق رفتاری سے سربران محکمہ جات نے اس کو عملی جامعہ پہنایا وہ قابل ستائش ہے۔اس کے انضمام سے قریبا چار سال کا بیک لاگ ختم ہو گا اور جب رپورٹس عدالتوں میں جمع ہونگی تو انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ملزمان جن خامیوں کا فائدہ اٹھا کر نظام انصاف سے شک کا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
عام افراد کا شاید پول کام کے بارے میں معلوم نہیں ، یہ پنجاب پولیس کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اہم اور پائیدار سسٹم ہے جو کہ ان کا اپنا قائم شدہ ہے چونکہ محکمہ کا حجم بڑا ہے اس لئے محکمانہ وافر وسائل کی وجہ سے اس سسٹم میں گنجائش بھی زیادہ ہے۔اور یہ کسی دیگر ادارے کا مرہون منت بھی نہیں ہے۔ اس میں پورے پنجاب کے جرائم کی بابت درج ہونے والی تمام ایف ائی آرز اور ان پر تفتیش کے مختلف مراحل کی بابت اعداد وشمار اور تفصیل مختلف مراحل میں اور حصوں میں متعلقہ تفتیشی افسروں کی جانب سے پنچ کی جاتی ہیں۔
مطلب اس کو الیکٹرانک میڈیم میں محفوظ کر کے مختلف سطح پرافسران کے علم میں لاکر ان سے راہنمائی، مزید بہتری اور پالیسی میکنگ کیلئے ڈیش بورڈ کی صورت میں اکٹھا کیا جاتا ہے۔جسے پول کام کہتے ہیں۔اس کو پولیس کمیونی کیشن سسٹم بھی کہاجاسکتا ہے۔پول کام کو 2017 میں ڈویلپ کیا گیا۔جو کہ کامیابی سے کام کر رہا تھا لیکن دوسرے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی اس پر رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ڈیٹا کی فراہمی میں کافی دشواری اور دوہری مشقت بشمول دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
دوسری طرف اسی طرز پر محکمہ پراسیکیوشن میں بھی ایک الیکٹرانک سسٹم پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باہمی تعاون سے قائم ہوا لیکن اس سسٹم میں بنیادی انفارمیشن کا سورس تو پول کام ہی تھا اور دونوں انفارمیشن سسٹم میں مکمل رابطے کے فقدان کی وجہ سے بنیادی انصاف کی فراہمی میں مسلسل دشواری اور مسائل کا سامنا تھا اور یوں مجموعی طور پر ملزمان کو فائدہ ہوتا اور پراسیکیوشن کے مقدمات میں ملزمان یا تو بری ہوجاتے یا ضمانت مل جاتی۔ پولیس اور پراسیکیوشن کریمنل جسٹس سسٹم کا حصہ اور پارسل ہیں۔ایک موثر تفتیش اور پراسیکیوشن دونوں محکموں کے تعاون اور ہم آہنگی کے بغیر ممکن نہیں۔موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید آلات کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ کاری کے خلا کو دور کرنے کی اشد ضرورت تھی تاکہ عوام انصاف کی فراہمی اور امن و امان کی بہتر صورتحال کے لئے دونوں محکموں سے مستفید ہو سکیں۔
اسی لئے دونوں سربراہان جناب سید فرھاد علی شاہ معزز پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور جناب محمد عثمان انور آئی جی پنجاب پولیس نے اپنے اپنے محکموں میں مستقبل میں عمل درآمد کے لئے ایس او پیز کا اجرا کیا ہے۔
اس سے قبل دونوں محکمے پہلے ہی صوبہ پنجاب میں پولیس اور پراسیکیوشن کے تعاون کے لئے مختلف معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر متفق ہو چکے ہیں۔ صرف مخصوص جرائم میں درخواست اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا اس میں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا موجودہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے تاکہ پنجاب بھر میں ہر قسم کے جرائم کی موثر تفتیش اور منصفانہ کارروائی کے لئے جامع انداز میں باہمی رابطہ کاری کو بہتر بنایا جا سکے۔ تعاون اس کا دوسرا بنیادی نقطہ ہے۔جس سے منصفانہ مقدمہ چلانے کا کلچر قائم ہو گا۔ محکمانہ آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں ایک شق یہ بھی رکھی گئی کہ ہر ادارہ اس کی موجودہ آئینی اور قانونی آزادی کا احترام کرتا رہے۔ پولیس تفتیش کی ذمہ دار ہے جب کہ پراسیکیوشن سروس عدالت میں مقدمات چلانے کی ذمہ دار ہے۔ ہر ادارے میں دو کاموں کی یہ علیحدگی جاری رہنی چاہیے۔دونوں کا باہمی انحصارتفتیش اورپراسیکیویشن کے عمل کے ذریعے نتیجہ حاصل کرنا ہے ، جس کے دونوں کا ایک ہی صفحہ پر ہونا ضروری ہے۔اس کے علاوہ قانون سازی کا فریم ورک، تعاون کا دائرہ کار واضع کرنا سمیت تعاون کے تین درجات پرائمری ، درمیانی اور اعلیٰ سطح طے کئے گئے ہیں۔ جدید طریقہ اپناتے ہوئے فوری اور ہموار کوآرڈینیشن کے لئے ہر سطح پر واٹس ایپ گروپس بنائے جائیں گے۔
پولیس اور پراسیکیوشن نے اپنے متعلقہ معلوماتی نظام تیار کیے ہیں جنہیں Pol.com اور CFMS کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تربیتی اور تعلیمی سیشن بھی منعقد کرائے جائیں گے۔ دونوں محکموں نے متعلقہ فرائض میں مقدمے سے پہلے کا مرحلہ/ ایف آئی آر کے اندراج سے چالان کے اختتام تک طے کئے ہیں۔ایک اہم بات یہ کہ اگر کوئی تفتیش مکمل نہیں ہوتی یا قانون کی طرف سے مقرر کردہ وقت یعنی 14 دن کے اندر مکمل نہیں کی جا سکتی تو تاخیر کی وجوہات پراسیکیوٹر کے ذریعے عدالت کو بتائی جائیں گی۔قصہ مختصر یہ کہ پولیس اور پراسیکیوشن کا کردار اہم ہونے کے کے ساتھ ساتھ دونوں کے مابین ہر سطح پر تعاون بہت ناگزیر ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کا بول بالا ہوسکے جس کے دونوں اداروں کے سربراہان نے ایک بہترین اور انقلابی قدم اٹھایا ہے جو معزز عدالتوں کے ساتھ انصاف کے متلاشی شہریوں کے لئے ثمر آور ثابت ہوں گے۔ راقم ذاتی طور پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد شاہ اور ان کی ٹیم محمد احمد سعید ، ارشد علی فاروقی اور آئی جی پنجاب بشمول ان کی ٹیم سے اظہار تشکر کرتا ہوں۔