انمول وزیر خزانہ

وزارت خزانہ کا شمار ملک کی اہم وزارتوں میں ہوتا ہے بلکہ کابینہ میں اس کی مرکزی حیثیت ہوتی ہے کہ باقی ساری وزارتیں اسی کے اردگرد گھومتی ہیں۔ وزیر خزانہ کے ہاتھ میں خزانے کی کنجیاں ہوتی ہیں۔ نئی حکومت میں نئے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے 11مارچ سے باقاعدہ چارج سنبھال لیا ہے اور ان کا پہلا ٹاسک آ ئی ایم ایف کے معاملات کو سیدھا کرنا اور اس کے بعد حکومت کا بجٹ بنانا ہے گویا صورت حال منیر نیازی کے اس شعر جیسی ہے کہ 
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 
نئے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب ایک بڑے نیٹ ورک کے بنک حبیب بنک کی صدارت اور معقول تنخواہ اور مراعات کی قربانی دے کر اس منصب پر متمکن ہوئے ہیں۔ اب یہ ان کا امتحان ہے کہ اس قربانی کے صلے میں وہ ملکی خزانے کو بھرتے ہیں یا ماضی کے وزرا خزانہ کی طرح عوام سے قربانی مانگتے ہیں۔ آ ئی ایم ایف ہر حکومت کو اپنے شکنجے میں جکڑتی ہے اور حکومت اس کا سارا نزلہ عوام پر ڈالتی ہے۔ آ ئی ایم ایف کے سارے وار عوام کو سہنا پڑتے ہیں اور اشرافیہ کہیں پتلی گلی سے نکل جاتی ہے۔ بجٹ کا سارا مرکزی کردار اور دارومدار بھی عوام پر ہوتا ہے محمد اورنگ زیب ایک منجھے ہوئے بینکر ہیں اعداد و شمار کی مہارت کے ساتھ ساتھ مالیاتی امور اور ان کی اونچ نیچ کو بخوبی جانتے ہیں۔ حبیب بنک کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے اپنے پانچ چھ سالوں میں نہ صرف بنک کے منافع کو کئی گنا بڑھایا بلکہ تمام مشکل چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ناقابل یقین اہداف بھی نہایت آ سانی سے حاصل کئے اور یہی ان کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے۔ اس سے قبل ایک بنک کے صدر شوکت ترین نے بھی وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالا تھا مگر وہ بھی ملکی معیشت کا قبلہ درست نہ کر پائے۔ غلام محمد پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ تھے جو بعد میں گورنر جنرل بھی بنے۔ وہ لیاقت علی خان کے معاون تھے جن کی وجہ سے لیاقت علی خان ایک عوام دوست بجٹ دینے میں کامیاب ہوئے۔ چارٹر اکاؤنٹنٹ کی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ نے عالمی من معاشی کانفرنس کا ڈول بھی ڈالا اور مسلم ممالک کے عالمی بلاک کی تجویز پیش کی۔ پاکستان کے ایک اور وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے بھی اس وزارت کو فعال رکھا اور پہلی مرتبہ انہوں نے ہر عام آدمی کی پہنچ میں سیب جیسے مہنگے پھل کی رسائی ممکن بنانے کا فارمولا پیش کیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن اور دیگر وزراء خزانہ بھی خالی خزانے کو بھرنے کے جتن کرتے رہے لیکن ہر نئی ا نے والی حکومت کو یہ خزانہ خالی ہی ملا اور اس میں مفلس کی جھولی کی طرح سو چھید ہی ملے۔ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے مخدوم شہاب الدین ملتان میں صنعت کاروں اور تاجروں کی ایک میٹنگ میں اپنے ایک قیمتی موبائل سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاہد اسی وجہ سے ان کی وزارت خزانہ کے دور میں صنعت کار اور تاجر ہاتھ ملتے ہی رہ گئے۔ چار دفعہ کے وزیر خزانہ رینے والے ماہر آ ئی ایم ایف اسحاق ڈار بھی ملکی معیشت کی بیچ منجدھار پھنسی کشتی کو کنارے پر لگانے میں کامیاب نہ ہو سکے ان کے دور میں ڈالر کی اڑان بھی اونچی رہی اور ہر آنے والے بجٹ اور منی بجٹ میں عوام کی چیخیں سنائی دیتی رہیں۔ ہمارا ملک اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک دور اور موڑ سے گذر رہا ہے جس میں زیادہ تر ہمارے حکمرانوں سیاست دانوں اور اشرافیہ کا  کردار ہے۔ عوام مہنگی بجلی ،گیس اور مہنگائی کے مہلک وار سہہ رہے ہیں اور ان کی اشک شوئی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آ ئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا پھندہ بھی عوام کے گلے میں فٹ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ نئے وزیر خزانہ نے ایف بی آ ر کو مزید بہتر بنانے کی نوید دی ہے۔ انہوں نے ایف بی آر کے دورے میں تمام ملازمین کے کام اور ٹارگٹ کا جائزہ لیا ہے۔ راقم بھی اس بات کا عینی شاہد ہے کہ بنک کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف بنک کے سارے ٹارگٹ حاصل کئے بلکہ انہوں نے بنک کے اعلیٰ عہدے داروں اور ملازمین کے ساتھ ذاتی طور پر رابطہ بھی رکھا، ان کو سپورٹ بھی کی۔ بنک میں راقم الحروف کو بھی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کے دوران ان سے کئی ملاقاتوں کا موقع ملا۔ اپنے بنک کے دوروں میں انہوں نے ملازمین کے مسائل حل کرنے، پرفارمنس ایوارڈ دینے اور ان کی محکمانہ اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنی سادہ طبیعت کی وجہ سے پروٹوکول اور ہٹو بچو کی پالیسی کے دلدادہ بھی نہیں ہیں۔ ملک کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے بھی انہوں نے یہی اصول روا رکھے اور انہیں آزادی سے کام کرنے دیا گیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ خراب معیشت کی بیچ منجدھار میں پھنسی نیا کو منجدھار سے نکالنے کے کھیون ہار ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے انہیں اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے کام کرنا ہوگا۔ صنعت کاروں تاجروں کے مسائل پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ عوام کے لئے بھی مسیحا کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی کے چنگل سے نکالنا ہوگا۔ آ پ کا یہ کہنا بجا ہے کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کامیاب پالیساں بنانا ہے۔ آ پ نے نہ صرف کامیاب پالیسیوں اور مربوط حکمت عملی کے ذریعے بنک کو عالمی رینکنگ کا نمبر ون بنک بنایا بلکہ آ پ نے ایک اچھی ٹیم اور اپنا متبادل بھی تیار کیا۔ آئی ایم ایف کی تجاویز کے مطابق بڑی صنعتوں اور اداروں کو خود مختار بنانے سے ہی بیمار معیشت کو صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔ نج کاری کے معاملات میں ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرانا چائیے۔ وزارت خزانہ کو ہمہ وقت مستعد اور فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ پی آ ئی اے، ریلوے کو منافع بخش ادارے بنانے کے لئے جرات مندانہ فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔ اسٹیل مل کراچی کے معاملات بھی توجہ طلب ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے سازگار ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اسٹیٹ بنک کی مانیٹرنگ اور ڈالر کو نیچے لانے کے اقدامات یقینا آ پ کی ترجیح ہوں گے شرح سود کو 22 فی صد پر برقرار رکھنے کے نتائج کے حصول کے ساتھ مہنگائی کی شرح بھی کم کریں۔ اپنی وزارت خزانہ کے دور میں عوام کے لئے ایسا قابل قبول عوام دوست بجٹ پیش کریں کہ آپ کے بنک کے ملازمین کی طرح عوام بھی آپ کے گن گائیں اور اسمبلی میں بجٹ کاپیاں اِدھر اُدھر اُڑتی نظر نہ آئیں اور لوگوں کو اس بات پر بھی تعجب نہ ہو کہ ہم نے ایک عرصے سے ملک کے خالی خزانے کی حفاظت کے لئے وزیر خزانہ رکھا ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن