ماہِ صیام کی مبارک ساعتوں کا پہلا عشرہ آج تکمیل پا رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے ماہ مارچ اس لئے بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اسی ماہ کی 23 تاریخ کو مسلمانوں نے ایک آزاد اور خودمختار مملکت اسلامی کے حصول کیلئے عہد کیا اور اس عہد کو قوم ’’تجدید عہد‘‘ کے طور پر ہر 23 مارچ کو انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ مناتی ہے۔ اس بار ماہ مارچ کی تاریخی سیاسی حیثیت اس لئے بھی بڑھنے جا رہی ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی سرپرستی اور انکے افکار کی روشنی میں جس وطن کے حصول کیلئے لاکھوں کروڑوں قربانیوں کا نذرانہ دینے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا‘ آج اسی ماہ میں نئے اتخابات کے بعد نئی جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس نئی مخلوط حکومت کی کارکردگی کیسی ہوگی؟ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسے طبقے کے مسائل حل کرنے میں یہ حکومت کہاں تک کامیاب ہو پائے گی‘ کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے کہ 76 برس گزرنے کے باوجود ہمارا سیاسی کلچر آج بھی جوں کا توں چلا آرہا ہے۔ یہی ہماری وہ بدقسمتی ہے جس کی بناء پر من حیث القوم ہم درست سمت کا تاہنوز تعین نہیں کر پائے۔ آزادی وطن کے بعد سے اب تک کیا کھویا کیا پایا؟ قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار و نظریات پر سیاست دان کہاں تک عمل پیرا ہوئے‘ آزادی وطن کی اہمیت‘ قومی خوشحالی‘ اسلامی نظام کا نفاذ اپنی قومی زبان اردو کو عملی شکل‘ اقلیتوں کو تحفظ‘ غربت کا خاتمہ اور ملک میں قانون کی بالادستی قائم کر پائے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے جوابات ہمارے حکمرانوں کے پاس تاہنوز موجود نہیں کہ بدقسمتی سے بانی پاکستان کے دیئے روڈمیپ کو سیاست دان سرے سے نظرانداز کر چکے ہیں۔
اب جس روز سے ماہ صیام کا آغاز ہوا ہے‘ اپنی دعائوں میں ہم نے جہاں وطن کی خوشحالی‘ بیماروں کی صحت یابی‘ روزے کی قبولیت اور دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے اضافی دعائیں مانگنے کا وقت بڑھایا ہے‘ اور امت مسلمہ میں اتحاد و یکجہتی اور دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں پر صہیونی قوتوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمہ کیلئے بھی اپنی دعائوں کے مخصوص اوقات میں اضافہ تو کیا ہے مگر صد افسوس! کہ اس دعا کی قبولیت کے راستے میں دنیاوی طور پر ابھی متعدد رکاوٹیں موجود ہیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ ایمان کی عدم پختگی ہے۔ ایک جانب صہیونی قوت اسرائیل اس متبرک اور رحمتوں والے ماہ مبارک میں بھی گزشتہ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں نہتے عوام‘ مظلوم فلسطینی عورتوں‘ بچوں سمیت شہریوں پر روزانہ کی بنیاد پر وحشیانہ بمباری جاری رکھے ہوئے ہے مگر دوسری طرف دنیا کے 57 اسلامی ممالک اس ظلم و بربریت پر محض ’’جمع تفریق‘‘ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ برطانیہ‘ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے پرامن مظاہروں اور غزہ میں فوری سیزفائر کی کوششوں اور عالمی قوتوں کے اصرار کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم غزہ میں جنگ بندی نہ کروانے کی ہٹ دھرمی پر قائم ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلمان بڑی طاقتوں کے سامنے بے بس اور مجبور ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری سے اب تک شہید کئے گئے بے گناہ فلسطینی افراد کی تعداد 31 ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ امریکہ 6 ماہ سے جاری اس جنگ میں پہلی مرتبہ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوا کہ مذکورہ غزہ جنگ میں اب تک 25 ہزار سے زیادہ خواتین اور بچوں کو اسرائیلی فورسز وحشیانہ طور پر قتل کر چکی ہیں۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جنگ کے حوالے سے اگلے روز اعتراف بھی کیا کہ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکہ کی جانب سے درست گائیڈ کئے جانے والے 21 ہزار گولے اسرائیل کو بھیجے جا چکے ہیں۔
جواب میں فلسطینی اتھارٹی کے سفیر ریاض المنصور کا کہنا ہے کہ عالمی برادری ’’غزہ میں خوراک‘‘ کیلئے جمع ہونے والے فلسطینیوں پر اسرائیل کی حالیہ بمباری کا فوری نوٹس لے اور اس وحشیانہ قتل عام پر ملوث صہیونی اسرائیلی فوجیوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں۔ سفیر کا کہنا تھا کہ نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کا اگر فوری نوٹس نہ لیا گیا تو ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ سلامتی کونسل کلی طور پر مفلوج ہو چکی ہے۔
دعائیں اس ماہ مبارک میں ہم اور بھی بہت سی مانگیں گے۔ امت مسلمہ کے اتحاد‘ مسلمانوں کی دنیا میں عزت و وقار اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے سے لے کر دکھی انسانیت کی خدمت‘ صلہ رحمی اور ایمانی استقامت کی دعا تک۔ جبکہ کچھ دعائیں صرف اور صرف ہم اپنی ذات کیلئے مانگیں گے۔ نئی حکومت میں ہردلعزیز اور منافع بخش وزارت کے حصول کیلئے بھی امیدوار 29 روزوں تک دعا مانگتے رہیں گے۔ اسی طرح جو امیدوار انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر پائے اپنی حکومتوں میں شمولیت کیلئے اب وہ معاون‘ ومشیر یا گورنرشپ کے حصول کیلئے دعائیں مانگیں گے۔
غریب‘ دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقات سستی بجلی و گیس‘ مہنگائی کے خاتمے اور سستی روٹی اور اپنی عزت محفوظ رکھنے کی جبکہ پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی ممالک کیلئے ویزوں اور پرمٹ کیلئے دعائیں مانگیں گے۔ ماہ صیام کی ان مبارک ساعتوں میں دعا مجھے بھی مانگنا ہے۔ سب سے پہلے دعا مجھے اپنے وطن کی بقاء و سلامتی اور سیاسی استحکام کیلئے مانگنا ہے اور پھر اگلی اس دعا کو کہ اے رب العالمین! دنیا بھر میں میرے پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ فرما اور ہمیں ایک ہی روز عیدالفطر منانے کے جذبہ سے سرشار کردے۔ آخری عشرے تک جاری رکھنا ہے کہ نہ جانے رحمتوں اور برکتوں کے اس ماہ مبارک کی کس گھڑی میں دیگر دعائوں سمیت میری یہ دعا بھی قبول ہو جائے اس لئے اٹھائیں دستِ دعا آپ بھی۔