سیاسی عدم برداشت کا خاتمہ 

الیکشن 2024ء کے بعد وفاقی و چاروں صوبائی حکومتیں بن چکی ہیں۔ صدر پاکستان کا انتخاب ہوچکا ہے۔ سینیٹ کے انتخابات ہورہے ہیں اور جمہوری نظام اپنے شیڈول کے مطابق جاری ہے جس سے نئے منتخب نمائندے باگ دوڑ سنبھال رہے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں کابینہ کی تشکیل جاری ہے۔ انتخابات کے بعد وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھنے والی سنی اتحاد کونسل/تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ میں حکومت قائم ہوئی ہے اور وہاں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور منتخب ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور صوبے کے مسائل کے حل‘ چیف سیکریٹری خیبرپختونخواہ کی تقرری اور وفاق سے صوبے کے فنڈز کے متعلق بات چیت ہوئی۔ یہ ملاقات انتہائی خوش آئند ہے اور آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر حکومتی و اپوزیشن جماعت کے ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی جمہوریت مضبوط ہوگی اور اسی طرح کے طرز عمل کی اشد ضرورت ہے۔تحریک انصاف کے چند رہنما وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کی وزیراعظم سے ملاقات پر تنقید کررہے ہیں اور پارٹی کے باہمی معاملات پر اختلافات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو چاہیئے کہ پارٹی کے اندرونی معاملات میڈیا پر نہ لائیں اور سیاسی عدم برداشت کے رویئے کے خاتمے کی پالیسی اختیار کی جانی چاہئے۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں 7آرڈیننس منظوری کے لئے پیش ہوئے جس کی اپوزیشن نے شدید مخالفت کی۔ بعد میں غزہ معاملے پر اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی جوکہ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تھی‘ اپوزیشن نے اس قرارداد کی بھی مخالفت کردی حالانکہ غزہ کا معاملہ اور اسرائیل کی جارحیت کے معاملے پر ایک قومی متفقہ قرارداد پاس کی جانی چاہئے تھی تاکہ عالمی دنیا میں واضح پیغام جاتا لیکن اس خالص عالمی معاملے پر بھی سیاست اور عدم برداشت کا مظاہرہ کیا گیا اور اپوزیشن کے اراکین نے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے وضاحت اورقرارداد کی اہمیت بتائے جانے کے باوجود اختلاف کیا گیا۔ اس طرح اختلاف برائے اختلاف اور عدم برداشت کی پالیسی کا خاتمہ ضروری ہے اور جہاں بطور پاکستانی قوم ایک متفقہ پیغام دینے کی ضرورت ہو وہاں سیاست کی قطعی ضرورت نہیں۔
ہم کب تک ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم رکھ کر معاملات چلائیں گے؟ آخر کب تک مخالفت برائے مخالفت ہوتی رہے گی؟ آخر کب تک ہم ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے درکار ماحول کی فراہمی کی اہلیت سے نابلد رہیں گے؟ ہم ملک کو معاشی استحکام دلانے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن غیر ملکی سرمایہ کاری وہیں پر آسکتی ہے جہاں سرمایہ کار کے لئے محفوظ اور من چاہا ماحول ہو تو دوسری جانب تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے مساوی قوانین و ماحول موجود ہو جہاں ہر ایک اپنے سرمائے اور خود کو محفوظ تصور کرسکے۔ دبئی و متحدہ عرب امارت میں خام تیل کی دولت تھی لیکن انہوں نے اپنے وسائل کو اس طرح سے استعمال کیا ہے کہ اب دنیا بھر کے لوگ دبئی و متحدہ عرب امارات میں رہنے اور سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب سعودی عرب بھی اسی ڈگر پر چل نکلا ہے۔ ہمارے ملک میں چین‘ عرب ممالک و دیگر برادر ممالک سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں لیکن سرمایہ کاری کے لئے ضروری ماحول و سہولیات‘ قوانین اور تحفظ کا احساس ‘ ابھی تک اس ملک میں میسر نہیں ہے کیونکہ یہاں سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل نے معاشرے کو پرتشدد بنادیا ہے۔
دہشت گردی اور انتہاء پسندی سمیت اہم مسائل کے خاتمے کے لئے قانون سازی اور دیگر اقدامات کرنے کی طرف کسی بھی سیاسی جماعت کی توجہ نہیں بلکہ دیکھا جائے تو امن و امان کا قیام سیاستدانوں نے براہ راست فوج کے حوالے کررکھا ہے اور خود موجودہ طرز سیاست میں مصروف عمل ہیں۔ مجموعی طور پر سیاستدانوں کو ملک کی معاشی صورتحال کی اس قدر فکر نہیں  جس قدر سنگین مسائل موجود ہیں۔ افغان پالیسی‘ بلوچستان میں موجود مسائل‘ پاک بھارت تعلقات سمیت اہم داخلی و خارجی امور اور جاری پالیسیوں پر مستقل مزاجی سے عملدرآمد کے معاملات میں سیاسی جماعتوں میں شعور کا فقدان ہے اور ان جماعتوں کی لیڈرشپ قومی وڑن سے نابلد نظر آتی ہے جس کا مظاہرہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے روز نظر آتا ہے۔
قومی خزانے پر بوجھ بننے والے بڑے قومی اداروں کو فوری طور پر نجی شعبے کے حوالے کیا جائے تاکہ ملکی خزانے پر غیر ضروری بوجھ کا خاتمہ ہوسکے۔ پی آئی اے‘ اسٹیل ملز‘ ریلوے اور پی ایس او سمیت بھاری نقصان میں چلنے والے تھرمل پاور اسٹیشنز کے متعلق فوری فیصلے ہونے چاہئیں۔ اسی طرح ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے اربوں روپے جمع کئے جاسکتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈاکٹر محبوب الحق وزیر خزانہ تھے اور معیشت کی حالت بالکل اسی طرح کی تھی تو انہوں نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا کہ 10%رقم کسی بھی کمرشل بینک میں جاکر جمع کرانے سے اسی طرح سے سفید کی گئی رقم کا سرٹیفیکیٹ حاصل کریں جوکہ گزشتہ 10سال کے دوران ٹیکس کے کسی کیس میں بھی قابل قبول ہوگا۔ اس اسکیم میں عام آدمی کو بھی کسی وکیل یا بورڈ آف ریونیو کے افسران کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس اسکیم سے ڈاکٹر محبوب الحق کا تخمینہ تھا کہ حکومت کو 12ارب روپے ملیں گے لیکن اسکیم کے آغاز پر کمرشل بینکوں کے باہر لوگوں کی دن بھر قطاریں لگ گئیں اور حکومتی خزانے کو 42ارب روپے ملے جبکہ سفید کئے گئے کھربوں روپے قومی معیشت میں شامل ہوئے جس سے کاروبار میں بہتری آئی اور حکومت کو ٹیکس ملنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں بھی نمایاں کمی آئی۔ اس وقت ڈاکٹر محبوب الحق طرز کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی ضرورت ہے۔ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے حکومت کو کھربوں روپے مل سکتے ہیں اور معیشت میں بھی نمایاں بہتری متوقع ہے جس سے بے روزگاری میں کمی آسکتی ہے۔
سیاستدان معیشت کی بحالی اور معاشی استحکام کے ایجنڈے پر قومی بات چیت کا آغاز کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے منتخب ہوتے ہی اپوزیشن جماعتوں کو بات چیت کی پیشکش کرتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا تاکہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو اور سیاسی ماحول بہتر ہوسکے۔ اس کے جواب میں اپوزیشن لیڈروں نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبات کئے۔ دونوں جانب سے ان تقاریر کے بعد ڈیڈلاک آجانا اور معاملات میں وہیں سردمہری آجانا ٹھیک نہیں۔ سیاسی عمل میں بات چیت مسلسل جاری رہتی ہے۔ باہمی اعتماد سازی کے دوطرفہ اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ حکومت الیکشن نتائج کے معاملے پر اپوزیشن کو 90روز میں ہر پلیٹ فارم پر درخواستیں منصفانہ طریقے سے نمٹانے کی پیشکش کرسکتی ہے جس کے جواب میں اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ ملک کی معاشی بہتری اور سیاسی استحکام کے لئے حکومت کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...