دہشت گردی: راحیل شریف یاد آئے 

جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے سے بہت پہلے پاکستان دہشت گردی کے بھنور میں گھر چکا تھا۔ پاکستان کے کئی علاقے فورسز کے لیے بھی نوگو ایریاز بن چکے تھے۔ ان علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی مکمل عملداری اور اجارہ داری تھی۔ ملک میں کئی طبقے ٹی ٹی پی کو مذہبی تنظیم کے طور پر جانتے اور اسلام کی ترویج کے لیے انہیں جہادی قرار دیتے تھے۔ پاکستان کے ہر ادارے میں ان کی اور ان کے حامیوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ ایک عرصیتک اخبارات میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مرنے والوں کو جاں بحق لکھا جاتا تھا۔ قبائلی علاقے خصوصی طور پر وزیرستان میں ان کا مکمل کنٹرول تھا۔ دفاعی تنصیبات اور فورسز پر پیدر پے حملوں سے ان کے دشمن کا ایجنٹ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔ فوج کے سوا ہر اداریاور حکمرانوں تک پران کی دھاک اور خوف موجود تھا۔ اس وقت کی حکومت کی طرف سے اس وقت ان سے مذاکرات کی سر توڑ کوشش کی گئی جب ان کے کہیں خودکش حملے کہیں بم دھماکے اور کہیں سرنگیں بچھا کر غارتگری جاری تھی۔ بریگیڈیئر ثنا اللہ نیازی ایسے ہی ایک حملے میں شہید ہوئے۔  جنرل مشتاق ایک خود کش حملے میں جام شہادت نوش کر گئے تھے۔ نواز شریف کی حکومت کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی تھی، جس کی سربراہی عرفان صدیقی کو سونپی گئی۔ اسی دوران فورسز کے جوانوں کے سر تن سے جدا کر کے فٹبال کی طرح ٹھڈے مارے گئے۔  ویڈیو توخالد خواجہ اور کرنل امام کو گولیوں سے اڑا دینے کی بھی جاری کی گئی تھی۔
 جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے تو ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ۔ ٹی ٹی پی کے حملوں پر جوابی کارروائی سے گریز کی پالیسی اختیار کی جاتی تھی۔ راحیل شریف نے ٹیک اوور کیا تو ایک سپاہی کی دہشت گردی میں موت کے بدلے 10 دہشت گرد مارے جانے لگے ۔ حملوں میں بری فوج کی طرح فضائیہ بھی بروئے کار رہی۔ اس وقت کی حکومت کی مرضی خواہش اور ہر صورت مذاکرات کی جستجو کے باوجود ضرب عضب آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، جس پر جمہوری حکومت بادل ناخواستہ آمادہ ہوئی اور پھر جب حکومت تیار ہو گئی تو پاک فوج کی مکمل سپورٹ کی۔ نیشنل ایکشن پلان بھی انہی دنوں منظور ہوا تھا۔  ضرب عضب آپریشن کئی حوالوں سے کار آمد رہا ایک  توعوام حکمرانوں اور اداروں کے اندر موجود طالبان کا خوف جاتا رہا، دوسرے ان کی مقبوضہ علاقوں پر گرفت کمزور پڑنے لگی۔ تیسرے کاری ضرب لگنے سے یہ اپنے مضبوط ٹھکانے چھوڑ کر افغانستان فرار ہونے لگے۔ پاکستان میں اگر ان میں سے کچھ رہ گئے تو صرف سہولت کاروں کے ایما پر رہے۔ میڈیا پر ان کے اثرات ختم ہو گئے جنہیں مجاہد کہا جاتا تھا ان کی پہچان دہشت گرد کے طور پر ہونے لگی۔ اس وقت ان کے مرنے والوں کو جاں بحق کے بجائے ہلاک کہا اور لکھا جانے لگا۔ اب جہنم واصل جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
 مذاکرات کے لیے ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ وزیرستان کے مقبوضہ علاقوں میں ان کو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے دی جائے۔ مذاکرات ہوتے تو زیادہ نہیں ان کے کچھ مطالبات تو مان لیے جاتے۔ طالبان نے مذاکرات کے لیے اپنی جانب سے عمران خان کا نام بھی دیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کیلئے ہر فوجی اور محب وطن پاکستانی کی طرح دفاعی تنصیبات پر حملے ناقابل برداشت تھے۔ پاکستان کے فائٹر اور جاسوس طیارے دہشت گردوں کی طرف سے تباہ کیے گئے جن کا پاکستان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ 
ریٹائرمنٹ پرجنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف اپریشنز جہاں پہ چھوڑے تھے ان کے جانشین جنرل قمر جاوید باجوا نے بغیر کسی تامل اور تعطل کے جاری رکھے۔ عسکری قیادتوں کی سیاسی معاملات میں مداخلت پر دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب کی کمٹمنٹ ایک جیسی رہی۔ ہر دور میں ان ممالک کے اندرکارروائی سے گریز کی پالیسی اختیار کی گئی جہاں سے پاکستان میں دہشت گردی درآتی تھی۔ آج کی عسکری قیادت نے جرأت کا مظاہرہ کیا ہے،پہلے ایران سے پاکستانی علاقے پنجگور میں حملہ کیا گیا۔ پاکستان نے اس کا جواب دیتے ہوئے سیستان میں موجود اور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانے نشانے پر لیے۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی پاکستان کے بدخواہ تھے۔ ان کے ادوار میں پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گردوں کو پناہ دینا سمجھ میں آتا ہے، طالبان حکومت ایسا کرے تو تکلیف دہ ہے۔
 پاکستان کی طرف سے بار بار نشاندہی کی گئی۔ ایک دو بار تو افغان طالبان کی طرف سے مثبت جواب بھی آیا۔ ان کے امیر ہیبت اللہ کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ پاکستان کے خلاف سرزمین افغانستان استعمال نہیں کرنے دی جائے گی مگر ان کا بیان باتوں کی حد تک ہی  رہا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین واقعات ہونے لگے۔ میر علی میں پچھلے ہفتے بدترین دہشت گردی ہوئی جس میں کرنل حارث اور کیپٹن احمد بدر سمیت سات جوان شہید ہو گئے۔ جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد مارے گئے۔ پاکستانی ایجنسیوں کے مطابق یہ دہشت گردی افغانستان سے در آئی تھی۔ اگلے روز اس دہشت گردی کا سرغنہ صحرا عرف جانان اپنے سات ساتھیوں سمیت کلیئرنس آپریشن  میں کام آگیا۔پاکستان کی طرف سے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانے پر فضائی حملہ کیا گیا۔ دہشت گردوں کے لیے یہی مناسب، مسکت اور دو ٹوک جواب تھا۔ افغانستان کے لئے نمائندہ خصوصی آصف درانی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پانچ سے چھ ہزار پاکستان سے بھاگے ہوئے دہشت گرد موجود ہیں۔ ان کے خاندانوں کو شمار کیا جائے تو تعداد 70 ہزار بنتی ہے۔ ان کی کفالت کون کرتا ہے؟ جواب بھارت ہے۔ طالبان حکومت کے ایک حصے یا کچھ عناصر نے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ پاکستان کے لیے تینوں: بھارت ،طالبان حکومت کے عناصر اور دہشت گردایک جیسے دشمن ثابت ہوئے ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ ہماری افواج آئندہ بھی ضرورت پڑنے پر ایسے ہی آپریشنز کریں گی۔ پاکستان افغانستان کے مابین کشیدگی کی طرف جاتے حالات بہتری کی طرف آنے کا انحصار افغان حکمرانوں کے رویئے پر ہے۔ امید تو بہتری کی ہی رکھنی چاہیے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن