چودھری پرویز الٰہی جیل کیواش روم میں گر کر زخمی ہو گئے
اب تو موجودہ حکومت نے اچھی طرح وفاق اور پنجاب کے علاوہ بلوچستان میں بھی پائوں جما لیے ہیں۔ سندھ بھی ان کے حامیوں کے پاس ہی ہے تو پھر اب جب چاروں طرف شانتی ہی شانتی ہے تو پھر ایک بزرگ سیاستدان کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ تو ویسے ہی آخری عمر میں انگلی کٹا کر شہیدوں کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ ان کے لیے تو غالب کی بات کا ہی خیال رکھا جا سکتا ہے کہ۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں۔
جی ہاں چودھری پرویز الٰہی ساری زندگی مسلم لیگ میں رہے۔ اختلاف ہوا تو ق لیگ بنا لی مگر رہے مسلم لیگی۔ بے شک ان کے ساتھ اپنوں نے بھی ہاتھ کیا۔ مگر یہ جو انہوں نے اپنی سیاست اور حکومت بچانے کے لیے اپنی ساری سیاست کپتان کے قدموں پر نچھاور کر دی اس کے بعد سے وہ مسلسل زیرِعتاب ہیں۔ انہیں ضمنی الیکشن کے لیے کاغذات بھی جمع کرانے نہیں دئیے گئے۔ اس پر وہ اور ان کی اہلیہ سراپا احتجاج ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ وہ جیل کے واش روم میں گر کر زخمی ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے حکمران ذرا ہتھ ہولا رکھیں۔ بہت ہو چکا اب انہیں رعایت دینے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ وہ کونسا سیاسی آتش فشاں ہیں جو پھٹ گیا تو سیاسی نظام تہہ و بالا ہو جائے گا۔ اس وقت ان کے اتحادی خود سیاسی دبائو کا شکار ہیں جن سے الحاق کیا یا ادغام انہی کی وجہ سے مخصوص سیٹوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ اگر انہیں چودھری پرویز الٰہی پر اعتماد ہوتا تو ان کی مردہ تن ق لیگ کو ہی استعمال کرنے کی کوشش کرتے مگر اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ خیبر پی کے گنڈا پور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے وزیر اعلیٰ خیبر کے علاوہ مسرت چیمہ، شہباز گل، شریں مزاری، شبلی فراز اور مراد سعید کو بھی 2 اپریل کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ باقی سب کی بات تو بعد میں ہو گی فی الحال تو علی امین گنڈا پور کا نام ہی کافی ہے سیاسی صورتحال میں اتھل پتھل مچانے کو۔ ویسے بھی کہتے ہیں ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔ باقی سب کی گرفتاری اس وقت ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ انہیں ہم شامل بارات بھی کہہ سکتے ہیں۔ اصل نام تو گنڈا پور کا ہے۔ ان کو کون جا کر پکڑ لائے گا۔ باقی سب اِدھر اْدھر سے مل جائیں گے سوائے مراد سعید کے جو کسی افغان میزبان کی میزبانی کے مزے لوٹ رہے ہیں (بقول شخصے)۔ رہی بات گنڈاپور کی تو وہ اس وقت وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہ بھی ایک ایسے صوبے کے جہاں ان کی جماعت خاصا گرم ماحول پیدا کر چکی ہے۔ اب گرفتاری تو بعد کی بات ہے پہلے دیکھتے ہیں اس خبر کے بعد وہاں سے کیا ردعمل آتا ہے۔ کون کون کیا کیا اور کیسے کیسے بیانات جاری کرتا ہے۔ ابھی تو وزیر اعظم کے ساتھ ان کی ملاقات سے کچھ ٹھنڈی ہوا چلی تھی اب پھر بادصرصر چلنے کا دھڑکا لگ گیا ہے۔ اندرون خانہ پہلے ہی کہا جا رہا تھا کہ رمضان کے بعد گرفتاریوں کا سیزن شروع ہونے والا ہے۔ مگر یہ کیا؟۔ لگ تو رہا ہے کہ رمضان کے وسط میں ہی پکڑ دھکڑ کا سیزن شروع ہو رہا ہے۔ اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں امید ہے حکمران اس سے باخبر ہوں گے۔ ورنہ بے خبری میں اکثر کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے جس کے بعد کچھ کچھ ہوتا ہے کہنے کا سمے نہیں رہتا۔
٭٭٭٭٭
کچے کے علاقے میں بندوق لے کر سکول پڑھانے جانے والے استاد کو ڈاکوئوں نے قتل کر دیا۔
ہم اسے قتل نہیں کہیں گے یہ تو سیدھی سادی شہادت ہے۔ کندھ کوٹ کے استاد اللہ رکھیو نے ڈاکوئوں کی دھمکیوں کی پرواہ نہیں کی اور کچے میں سکول میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے جاتا رہا تاکہ علم کی شمع روشن رہے۔ دھمکیاں ملیں تو بندوق خرید لی تاکہ اگر ڈاکوئوں نے روکا تو مقابلہ کروں گا مگر سکول پڑھانے جائوں گا۔ علم کی راہ کا یہ شہید اپنے قول کا پکا نکلا اور ڈاکوئوں نے اس کے عزم سے خوفزدہ ہو کر بلآخر گزشتہ روز اسے شہید کر دیا۔ کیا اب بھی سندھ اور پنجاب کے حکمرانوں کے پاس اس علاقے میں ایک خونریز ایکشن نہ کرنے کا کوئی جواز ہے۔ کیوں نہ ڈاکوئوں کے ٹھکانوں کو اس طرح بمباری کر کے تباہ برباد کیا جائے جس طرح سرحد پار دشمنوں کے تخریب کاروں کے ٹھکانوں کو کیا گیا۔ یہ دہشت گرد ڈاکو سینکڑوں مغویوں کو قتل کرنے کے مرتکب بھی ہیں۔ ان پر ترس کھانا زہریلے سانپوں پر ترس کھانے کے برابر ہے۔ حکومت اس شہیداستاد کو اعلیٰ سول اعزاز عطا کرے۔ اس سکول کو ان کے نام سے منسوب کرے اور اس کے خاندان کی بھرپور امداد کر کے ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔ یہ ہوتی ہے علم دوستی اور علم کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا عزم، اگر یہ جذبہ سلامت ہو تو جہالت کا دیو کبھی بھی علم کا روشن چراغ نہیں بجھا سکتا۔ آرمی پبلک سکول پشاور کا قتل عام ہو یا سندھ کے اس بہادر استاد کا قتل۔ ان سے قوموں کو ان کے جذبوں کو مزید جلا ملتی ہے۔ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا بالآخر ملک سے جہالت کے اندھیرے مٹ کر رہیں گے اور یہاں علم کی روشنی پھیلے گی…
٭٭٭٭٭
دوسری شادی کرنے پر بیوی نے شوہر کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی
کہاں وہ عورتیں جو خاموشی سے اپنے شوہروں کی دوسری یا تیسری شادی پر زہر کے گھونٹ پی کر چپ رہتی ہیں اور کہاں یہ زخمی ناگن جیسی خواتین اب سامنے آ رہی ہیں جو ایسی حرکت پر اپنے مجازی خدا کو ہی اوپر بھیجنے کی تیاری کرتی ہیں۔ اگر شوہر استطاعت رکھتا ہو انصاف کر سکتا ہو، حقوق پورے کرتا ہو تو دوسری شادی میں کوئی برائی نہیں۔ ویسے خواتین ذرا اس پر بھی تو غور کریں بقول شاعر
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔
وہ خود اپنے شوہروں کو سانس تک لینے نہیں دیتیں ہر وقت مسائل کا رونا لے کر بیٹھ جاتی ہیں۔ شک کرنے کی بیماری بھی عام ہے۔ اگر وہ اپنی اصلاح کریں تو شوہر کو کیا پڑی کہ وہ دوسری شادی کا سوچے۔ ویسے بھی موجودہ حالات میں دوسری شادی کی عیاشی کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ اخراجات منہ کھولے سامنے آتے ہیں۔ بچے پالنا اور سنبھالنا الگ مسئلہ ہے۔ صرف پیدا کر کے انہیں گلیوں میں خاک چھاننے کے لیے چھوڑنا انسانیت نہیں۔ تعلیم و تربیت بھی اچھی طرح کرنے کا حکم ہے۔ اس کے باوجود دوسری شادی کی اتنی بڑی سزا بھی غلط ہے۔ یہ تو کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی جسارت ہے۔ ابھی تو ویسے ہی قانون بھی سخت ہو گیا ہے۔ کوئی شوہر پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرے تو قید اور جرمانہ شادی کی ساری خوشی پر پانی پھیرنے کے لیے موجود ہے تو پھر یہ آگ لگانے کا آئیڈیا ہی غلط ہے۔ جو کام قانون خود کر سکتا ہے اسے اپنے ہاتھوں سرانجام دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال اب یہ نیا طرز انتقام خاصی خطرناک صورتحال کی عکاسی کر رہا ہے۔ اب عورت خودکشی کرنے کی بجائے مجازی خدا کو ہی خدا کے پاس پہنچانے کے درپے ہو گئی ہے…
٭٭٭٭٭