حافظ فضل الرحیم اشرفی
ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓاکے بارے میں حضورؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ! جب لوگوں نے مجھ پر ایمان لانے سے انکار کیا تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب لوگوں نے مجھے معاش سے محروم کر دیا تو انھوں نے مال سے میری مدد کی، جب خدا نے دوسری بیویوں سے مجھے اولاد سے محروم رکھا تو ان سے مجھے اولاد عطا فرمائی۔حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓکو عورتوں میں سے سب سے پہلے حضورؐ پر ایمان لانے اور حضورؐ کی پہلی بیوی ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ عمر میں بڑی ہونے کے باوجود حضور ؐنے آپ سے نکاح فرمایا اور آپ کے ہوتے ہوئے حضورؐنے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں فرمایا، آپ نے 25 پچیس برس حضور ؐکی رفاقت و خدمت میں بیوی ہونے کی حیثیت سے گزارے اور اپنی تمام دولت حضورؐ کے قدموں پر نچھاور کر دی…
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بارے میںام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور ؐ نے ان کو جنت کے ایک ایسے گھر کی خوشخبری سنائی جو تازہ آبدار مراویدیاز برجد (موتی) کا ہو گا جس میں شور ہو گا اور نہ ہی رنج و ملال۔ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ حسنِ سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، عزت و عصمت اور شرافت و مرتبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقوں میں ’’طاہرہ‘‘ کے خوبصورت اور پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں، آپ کا سلسلہ نسب ’’قصی‘‘ پر پہنچ کر حضورؐکے خاندان سے مل جاتا ہے۔ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کے والد خویلد کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا جو کہ بہت بڑے اور کامیاب تاجر تھے۔ عام روایت کے مطابق حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ’’عام الفیل‘‘ سے پندرہ برس قبل مکہ مکرمہ میںپیدا ہوئیں تھیں، آپ کی تربیت و پرورش انتہائی نازو نعم میں ہوئی۔بالغ ہونے کے بعد آپ کا نکاح ابو ھالہ بن زرارہ تمیمی سے ہوا، ان سے آپ کے دو لڑکے اور ایک روایت کے مطابق تین لڑکے ہالہ، طاہر اور حارث پیدا ہوئے اور یہ تینوں حضورؐ کی رسالت پر ایمان لاتے ہوئے صحابیت کے مرتبہ پر فائز ہوئے…ابوھالہ کے انتقال کے بعد حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائز مخزومی سے ہوا اس سے ایک لڑکی ہند پیدا ہوئی اور کچھ عرصہ کے بعد آپ کے دوسرے خاوند عتیق بن عائز مخزومی بھی انتقال کر گئے… دوسری بار بیوہ ہونے کے بعد آپ نے مزید نکاح کاارادہ ترک کر دیا اور اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں تجارت کے فروغ میں صرف کرنا شروع کر دیں، آپ کے اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، دولت و شرافت اور عزت کی وجہ سے قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے آپ کو کئی بار نکاح کا پیغام بھیجا لیکن آپ نے بڑی حکمت اور خاموشی سے رد کر دیا۔
آپ اپنا سامان تجارت مختلف لوگوں کے ذریعہ شام اور یمن تجارت کی غرض سے بھیجا کرتی تھیںاور ان کو بھی منافع میں شریک کر لیتیں، آپ کے تجارتی قافلوں کی نگرانی آپ کے قابل اعتماد اور معاملہ فہم غلام مسیرہ کیا کرتا تھا… ابن ہشام اور دیگر روایات کے مطابق ایک روز آپ کے غلام مسیرہ نے آپ سے حضرت محمد بن عبد اللہؐ کی امانت و دیانت، شرافت اور عالی نسب کا ذکر کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اس مرتبہ تجارتی قافلہ کا نگران اور شریک حضرت محمد بن عبد اللہ کو بنا کر بھیجا جائے۔ آپؐ دیانت و امانت کی وجہ سے لوگوں میں صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے… ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے غلام مسیرہ کے مشورہ کو مانتے ہوئے اس سلسلہ میں مسیرہ کو حضور ؐ سے بات چیت کرنے کیلئے کہا… حضور اپنے چچا اور سرپرست ابو طالب کے مشورہ سے سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کی اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے مسیرہ کے ہمراہ تجارتی قافلہ کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہو گئے…حضورؐ کی رفاقت اور سفر کے بارے میں غلام میسرہ نے جو کچھ دیکھا ان الفاظ میں حضرت خدیجہ کو بیان کیا، کہ وہ عجیب تر ہے، میں نے محمد بن عبد اللہ کو مشکلات میں بلند حوصلہ، مصائب میں پرسکون، ہجوم میں باوقار اور خرید و فروخت میں انتہائی ذہین و فہیم اور دور اندیش پایا اوروہ ایک بردبار اور متحمل مزاج نوجوان ہیں ان کی خاموشی میں وقار اور گفتگو میں دلکشی ہے، ان کے منہ سے کوئی فضول بات نہیں نکلتی، لوگ اگر ان کو صادق و امین کہتے ہیں تو حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں ۔ آپ بھی تجارت ان کے سپرد کر دیں بس کاروبار چمک اٹھے گا۔
غلام مسیرہ نے مزید بتایا کہ جب دوران سفر ’’بصرٰی‘‘ کے مقام پر پہنچے اور ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے تو اس خانقاہ کے راہب ’’نسطورا‘‘ نے مجھے بلایا اور پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے جواب میں کہا کہ یہ بنو ہاشم کے گھرانے کا ایک پاکباز نوجوان ہے، تو نسطورا نے کہا کہ اس درخت کے نیچے نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرتا پھر اس نے مجھ سے محمد بن عبد اللہ ؐ کی آنکھوں میں موجزن سرخی کے بارے میں دریافت کیا اور بولا کہ وہ یقینا نبی آخر الزماں ہیں۔دوسرے روز جب حضورؐنے شام کے تجارتی سفر کا حساب کتاب پیش کیا، تو اس دفعہ حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کو توقع سے بڑھ کر نفع ہوا تھا (بحوالہ کتاب خدیجۃ الکبرٰیؓ ص 19)
کاروبار تجارت میں حضورؐ کی دیانت و امانت اور آپ ؐ کی سچائی نے حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ نے اپنی عزیز ترین سہیلی نفیسہ کے ذریعہ حضور ؐکو نکاح کا پیغام بھیجا۔ اجازت و رضا مندی کے بعد مقررہ تاریخ پر آپ ؐ کا نکاح چچا حضرت ابوطالب نے پڑھایا نکاح کے وقت حضورؐ کی عمر مبارک 25 پچیس برس اور حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ کی عمر 40 چالیس برس تھی۔ شادی کے دو اڑھائی سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو اولاد جیسی نعمت سے نوازتے ہوئے فرزند سعید عطا کیا، جس کا نام قاسمؓ رکھا گیا جس کی نسبت سے ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰیؓ بھی آپ کو ابو القاسم کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔بچپن ہی میںقاسمؓ کی وفات کے اڑھائی سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حضرت سیدہ زینبؓ جیسی سعادت مند بیٹی سے نوازا، اس کے بعد یکے بعد دیگر حضرت سیدہ رقیہؓ، حضرت سیدہ ام کلثومؓ اور حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا اس دنیا میں تشریف لائیں۔