آغا سید حامد علی شاہ موسوی
کتنی عالی مقام تھیں ام المومنین مادر زہراؓ حضرت خدیجۃ الکبریؓ جن کے بارے میں وحی کے بغیر کلام نہ کر نے والے خاتم الانبیاء ؐ نے فرمایا خدا نے خدیجہؓ سے بہتر کوئی عورت مجھ محمد مصطفی ؐ کو نہیں دی وہ اس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے میرا انکار کیا اور اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا جب لوگوں نے مجھ پر پابندیاں لگائیں تو اس نے اپنی دولت کے ذریعے میری مدد کی اور خدا نے اس سے مجھے ایسی اولاد عطا کی جو دوسری ازواج سے عطا نہیں کی۔(احمدبن حنبلؒ بروایت حضرت عائشہؓ، کنز العمال، طبرانی، خطیب بغدادی )
ہر زمانے کی خواتین ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کے مقام عظمت پرفخر و مباہات کرتی ہیں جن کی رفاقت پر کائنات کی افضل ترین ہستی محمد مصطفیؐ کو بھی نازرہا ، دین خدا پر جن کے احسانات ہمیشہ حبیب خداؐ کی زبان پر رہے ، کوئی خاتون اُس بی بی خدیجہؓ کی ہمسری نہیں کرسکتی جنہیں اللہ کے پیارے نبیؐ کی پہلی شریکہ حیات ہونے کا اعزاز ملا ۔ 25سال کائنات کی افضل ترین ہستی کی واحدشریک سفر حضرت خدیجہ بنت خویلد تھیںجبکہ بقیہ 13سالہ زندگی میں 11امہات المومنین رسول کریم ؐ کے حرم میں شامل ہوئیں ۔ حضرت خدیجۃالکبریٰ ؓ کو دین اسلام کی پہلی مصدقہ ہونے کا اعزا زحاصل ہوا۔کتنی جرات مند تھیں خدیجۃالکبریؓ کہ جب پورا عرب دین تو حید کی تبلیغ پرہادی اسلام کے خون کا پیاساتھاحضرت ابو طالب کے پہرے میں کم سن حضرت علی ابن ابی طالب ؓ کے ہمراہ خویلد ابن اسد کی شیردل بیٹی نبی کریمؐ ؐکے ساتھ کعبۃ اللہ کے سامنے کھلم کھلا نماز ادا کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے کعبہ کے سامنے تین شخصیات کو انوکھی عباد ت کرتے دیکھ کر عباس ابن عبد المطلبؓ سے پوچھا :’’ اے ابوالفضل ! ہم اس دین کو نہیں جانتے یا کوئی نیا دین چل پڑا ہے عباسؓ نے کہا : یہ میرا بھتیجا محمد بن عبداللہؐ ہے۔ یہ لڑکا علی بن ابی طالبؓ ہے اور عورت محمدؐ کی بیوی خدیجہؓ ہے۔ بخدا ! سطح زمین پر ہم ان تین کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جو اس دین کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو۔ (ابن عساکر، کنز العمال ) کتنی وفا شعار تھیں خدیجہ بنت خویلدؓ کہ جب سارے زمانے نے حضور اکرمؐ کا بائیکاٹ کردیا تو عرب کی مالدار ترین خاتون الفت مشن مصطفی ؐ میں کئی کئی روز فاقے کرتی رہیں اور دوسروں کیلئے سرچشمہ ایثارو وفا کا نمونہ بن گئیں۔ آپ ؐ نے دین اسلام میں حضرت خدیجہ ؓ کو عالمین کی عورتوں پر فضیلت دے کر چار بہترین خواتین مریم بنت عمران؛فاطمۃ بنت محمد، وآسیۃ امراۃ فرعون‘‘کے ساتھ افضل و برتر قرار دیدیا( سن کبری بیہقی )
حضرت خدیجہ کے فضائل اور عظمتوں کا احاطہ کسی انسان سے ممکن نہیں ، حضرت خدیجہ کے قصائد اور مناقب رسول خدا ؐ نے اس قدر بیان کئے کہ حضرت عائشہ ؓ بھی بیان فرماتی نظر آتی ہیں ’’ کہ مجھے جتنا رشک حضرت خدیجہ ؓپر آتا ہے رسول اللہؐکی کسی بیوی پر نہیں آتا تھا حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا۔کتنی بڑی شان تھی حضرت خدیجہؓ کی جن کیلئے ملائکہ کا سردار جبرائیل بھی حضرت خدیجہ کیلئے بشارتیں لے کر نا زل ہو تا تھا خود قرآن جن کی رفاقت کونبی کریم ؐ کیلئے اللہ کا انعام قرار دیتا ہے ۔
بزرگ عالم ا ہلسنت امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں رقم طراز ہیں کہ ’’اللہ نے رسول خداؐ کو حضرت خدیجہ کے مال کے ذریعے غنی کیا‘
کیا شرف حاصل ہوا حضرت خدیجہؓ کے مال کو کہ جس کا انتخاب اللہ نے اسلامی انقلاب کی مالی پشت پناہی کیلئے کیا۔ عرب کی مالدار ترین ہستی حضرت خدیجہ الکبریؓ نے اپنی دولت کائنات کی افضل ترین ہستی محمد مصطفی ؐ کے قدموں میں نچھاورکرکے ایثار و قربانی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک بے مثل رہے گی۔حضرت خدیجہ ؓ کے مال سے غلاموں کو رہائی ملتی غریب مسلمانوں کے قرضے ادا ہوتے اور وہ ابو جہلوں کے چنگل سے آزادہوتے رہے۔جاہلیت کا وہ معاشرہ جو عورت کو ننگ و عار سمجھتا ہواور بیٹیوں کو زندہ در گور کردیتا ہو وہی معاشرہ جس عورت کو’ طاہرہ‘ سمجھے وہ کس عروج اور کمال کی حامل ہونگی،یہ دو خطاب اس بات کی دلیل ہیں۔
حضرت خدیجہ نے حضور کے ساتھ جب تزویج کا پیغام بھیجا آپؐ نے یہ بات اپنے چچائوں سے نقل کی، چنانچہ حضرت ابو طالبؓ کی سرکردگی ایک وفد حضرت خدیجہ کے چچا عمر ابن اسد اور بعض روایات میں آپ کے والد خویلد کے گھر تشریف لے گئے ۔حضرت ابوطالب نے ترجمان حقیقت بن کر لا جواب انداز میں مقام مصطفیؐ سے حضرت خدیجہ کے خاندان کو آگا ہ فرمایا،اورسول ؐ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے 15سال پہلے جو خطبہ پڑھاوہ شان مصطفی ؐاورخاندان بنو ہاشم کی عظمت پر روشن دلیل ہے ۔
اس خطبہ کے جواب میں حضرت خدیجہ کے چچا زاد اور عرب کے بزرگ عالم ورقہ بن نوفل اٹھے اور فرمایا’’اے شیخ البطحا سید القر یش آپ نے جن فضائل و کمالات کا ذکر کیا ہے عرب کا کوئی قبیلہ ان سے انکار نہیں کرسکتا۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ کے خاندان کے ساتھ ہمارا انتساب ہو گیا۔‘‘ پھر کائنات کی سب سے بڑی شادی اور خواستگاری کی رسمیں ادا ہوگئیں۔حضرت خدیجہؓ اسلام کی خاتون اول بن کر پہلی ام المومنین کہلائیں۔اسلام کی نشرواشاعت میں خدیجہؓ رسول کا قوت بازوبنی رہیں۔جب قریش نے بنو ہاشم کا مقاطعہ یعنی بائیکاٹ کیا تو عرب کی شہزادی حضرت خدیجۃ الکبری نے حضرت ابوطالب کے ہمراہ نبی ؐکی نصرت کیلئے شعب ابی طالب میں سختیوں کو برداشت کیا۔اس تین سال کی اسیری اور فاقہ کشی ے حضرت خدیجہ کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا اور بالآخر بعثت نبوی ؐ کے 10ویں سال 10رمضان کو حضرت خدیجہ الکبری رسول کریم ؐ کو سوگوار چھوڑ کر رحلت فرما گئیں۔جن کا ذکررسول کریم ؐ کبھی فراموش نہ کرپائے ،اس جدائی پر اس قدر ملال کہ آنحضرت نے عم بزرگوارحضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات کے سال کو عام الحزن قراردیا۔