اسلام آباد : تیکھے سوالات، وزیراعظم نے زیادہ تر مصالحتی انداز اپنایا

May 21, 2010

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد (شیریں ایم مزاری) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نرم گفتاری اور بظاہر ان کے رویہ سے یہ عمومی طور پر ایک غلط تاثر پیدا ہوتا ہے کہ تمام مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے ان کے اصل خیالات ان کی سرائیکی دلکشی کے اندر چھپے ہوئے ہیں اور اس کا مشاہدہ جمعرات کی صبح وزیراعظم کے صحافیوں کے اعزاز میں ناشتے کے وقت ہوا۔ اس موقع پر اگرچہ کچھ تھیکے سوال و جواب اور کمنٹس بھی کئے گئے مگر وزیراعظم نے زیادہ تر مصالحتی انداز ہی اپنایا۔ عدلیہ اور انتظامیہ میں معاملات پر وزیراعظم نے محض اتنا کہا کہ یہ مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا۔ ان کی گفتگو سے یہ تاثر ملتا تھا کہ اس ساری صورتحال میں اب موجودہ سیاسی قیادت کے حق میں لہر بیدار ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کے مطابق این آر او کے حوالے سے فیصلہ کے باوجود اسلام آباد سے باہر عوام کی بڑی تعداد پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے اور اس کا اظہار حالیہ الیکشن میں ہوا۔ عدلیہ انتظامیہ کے درمیان ٹکراﺅ کے حوالے سوالات پر وزیراعظم نے بڑے اعتماد کے ساتھ یہ کہا کہ یہ تمام معاملات ”واک آﺅٹ“ کرلیں گے یا تو وہ عام آدمی سے زیادہ جانتے ہیں یا پھر یہ ان کی روایتی اور معمول کے مطابق امید پسندی تھی۔ صدر کے دو عہدوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے یہ سوال دہرایا کہ آیا دونوں عہدے الگ کئے جاسکتے ہیں اور اس کا جواب انہوں نے نفی میں دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر صدر پارٹی صدارت چھوڑ بھی دیں تو ان کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ وزیروں کےلئے جو ہدایات جاری کریں اس پر عملدرآمد ہوگا۔ انہوں نے عمومی حالات کے پیش نظر بینظیر بھٹو کی جانب سے مخدوم امین فہیم اور نوازشریف کی جانب سے اپنے بھائی (شہبازشریف) کو اختیارات کی منتقلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں کوئی اختلافات تھے کہ پارٹی کون کنٹرول کر رہا ہے۔ اس موقع پر انہیں بتایا کہ یہ دونوں رہنما کسی اعلیٰ حکومتی عہدہ پر فائز نہیں تھے۔ صدر مملکت کو ملک کی نمائندگی کرنی ہوتی ہے نہ کہ وزیراعظم کی طرح پارٹی کی جن کے پاس سیاسی عہدہ بھی ہے اور پارلیمانی نظام میں وہ پارٹی کی قیادت کرتا ہے۔ وزیراعظم نے اس معاملے پر کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ سپریم کورٹ اس پر کیاکہتی ہے۔ سوئس کیسز ری اوپن کرنے کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے تو اسے وزیراعظم کیسے ختم کرکے سوئس حکام کو خط لکھنے پر رضامند ہوسکتا ہے۔ جب ان کی توجہ اس جانب دلائی گئی کہ جب زرداری صدر نہیں تھے تو اس وقت یہ کیسز بند کئے گئے اور انہیں سابقہ اقدامات پر استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا تو انہوں نے پھر کہا کہ اس حوالے سے عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں، وزیرداخلہ رحمن ملک کی معافی کے حوالے سے جب کہا گیا کہ وہ بیوروکریٹ تھے، سیاسی رہنما نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے وزیراعظم نے اس حوالے سے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی بعض ایسے سرکاری اہلکار جو کسی سیاسی رہنما کے ساتھ منسلک ہوگئے تو انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر تو صرف عام آدمی کے خلاف ہی کرپشن کے الزامات عائد ہوسکتے ہیں۔ جمشید دستی کے حوالے سے ان کو یہ وضاحت کرنے میں مشکل تھی کہ انہوں نے دستی کو ٹکٹ دینے کی کیوں حمایت کی۔
مزیدخبریں